آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے

آپ  رد ِّالحاد کے ماہر بن سکتے ہیں۔

آپ لبرل ازم کو رد کرنے کے ماہر بن سکتے ہیں۔

آپ فیمنسٹ کو رد کرنے کے ماہر بن سکتے ہیں۔

لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اس سے کچھ بھی نہیں بدلے گا۔

کیوں ؟

اس لیے کہ صحیح عقائد کا حامل ہونا ہمیشہ کافی نہیں ہوتا ہے۔ آپ کے اسلامی عقائد آج 100 فیصد درست ہوسکتے ہیں ، لیکن آنے والے کل کو آپ کے عقائد کیا ہوں گے؟

ایک مشہور حدیث میں آتا ہے کہ ایک عادی قاتل جو قتل سے رکنا چاہتا تھا اور اللہ سے توبہ کرنا چاہتا تھا، اسے مشورہ دیا گیا کہ کسی دوسرے شہر چلے جاؤ۔ اس سے جو بات ہمیں پتہ چلتی ہے وہ یہ ہے کہ اس کی توبہ کی خواہش اس کی اصلاح کے لئے کافی نہیں تھی۔ ایک ماحولیاتی عنصر بھی ہے۔

ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ نبی ﷺنے فرمایا کہ: "آدمی اپنے دوست کے دین پرہوتا ہے ، اس لیے تم میں سے ہرشخص کویہ دیکھنا چاہیے کہ وہ کس سے دوستی کررہاہے۔"

اس سے دوستی کے ان اثرات کا پتہ چلتا ہے جو کسی شخص کے مذہب پر اثر پذیر ہوتے ہیں۔اگر آپ اپنے دوستوں سے متاثر ہو رہے ہیں جو آپ کو ان عقائد سے دور کر سکتے ہیں تو صحیح عقائد ہونے کے باوجود آپ کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

بہت سی دوسری مثالیں دی جاسکتی ہیں ، لیکن اہم نکتہ یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی گزارنے کے طریقہ کار سے متاثر ہوتے ہیں۔ ہم اپنے ماحول سے ایسے طریقوں سے متاثر ہوتے ہیں جن کا ہمیں ہمیشہ احساس نہیں ہوتا ہے۔

آپ الحاد کو رد کرنے کے ماہر بن سکتے ہیں۔

آپ لبرل ازم کی تردید کے ماہر بن سکتے ہیں۔

آپ فیمنزم کو رد کرنے کے ماہر بن سکتے ہیں۔

لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اگر آپ کا طرز زندگی ان نظریات کی تصدیق کرتا ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے اگرآپ کا ماحول آپ کے ذہن کو لطیف انداز میں متاثر کر رہا ہے تاکہ آپ کو ان باطل نظریات کا شکار بنایا جا سکے ۔

اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، اگر آپ کے معاشرے کا پورا ڈھانچہ مادی، ذہنی اور روحانی طور پر آپ کو اپنے خالق کے خلاف باغی بنا رہا ہے۔

الحاد ، لبرل ازم ، فیمنزم  وغیرہ کا فکری طور پر تردید کرنے کے قابل ہونا بہت زبردست صلاحیت ہے ، لیکن اگر آپ اپنے طرز زندگی کو واضح طور پر تبدیل کرنے کے لئے عملی اقدامات نہیں اٹھا رہے ہیں تو آپ اس بات کی ضمانت نہیں دے سکتے کہ کل آپ کے عقائد میں کیا تبدیلی رونما ہو گئی ہو گی۔

اللہ ہمیں دین اسلام پر ثابت قدم رکھے۔

ترجمہ ۔ سید علی ایمن رضوی