گل تھا بلبل تھی گلستاں میں مگر تو ہی نہ تھا

گل تھا بلبل تھی گلستاں میں مگر تو ہی نہ تھا
کیا گلستاں وہ گلستاں تھا اگر تو ہی نہ تھا


شور و ہنگامہ تو عاشق کو نہیں دیتا ہے زیب
سب ہی زخمی تھے وہاں زیر و زبر تو ہی نہ تھا


رنگ کتنے تھے مگر تجھ کو نہ تھا شوق حیات
ہم سفر کتنے تھے مشتاق سفر تو ہی نہ تھا


چاہ شہرت کہ نہ کر پر تو یوں رسوا تو نہ ہو
تیری خاطر تھی سجی بزم ہنر تو ہی نہ تھا


کیسا منظر ہو بنا نور نظر کچھ بھی نہیں
کیسے منظر تھے پر اے نور نظر تو ہی نہ تھا


مجھ کو خدشہ تھا کہ تو جادو ہے پر چھو ہی لیا
وہی آخر کو ہوا جس کا تھا ڈر تو ہی نہ تھا


آشنا تو ہی تھا شعروں کے اشاروں سے مرے
کیا ہی پھر کرتا بھلا عرض ہنر تو ہی نہ تھا