غربت و وطن
رشید لکھنے کی میز پر، داہنا ہاتھ، اور ہاتھ پر سر رکھے ہوئے خیال میں مستغرق بیٹھا ہے۔ لمپ کی روشنی اس کے چہرے پر پڑ رہی ہے اور بتا رہی ہے کہ گو شہر میں (اس شہر میں جہاں رشید، غربت کے دن، انس واضطراب کی کچھ عجیب آمیزش کے ساتھ کاٹ رہا ہے) گو اس شہر میں اس وقت خاموشی چھائی ہوئی ہے، لیکن اس کے دل میں خیالات کا طوفان موجزن ہے۔چار طرف سناٹا ہے اور تاریکی، صرف کمرے میں گھڑی کھٹ۔۔۔ کھٹ۔۔۔ کھٹ کر رہی ہے، گلی کا کتا بھونکتا ہے، قریب کے کمرے میں نوکر، دن کا کام ختم کرکے گہری نیند (حیات ساعیانہ کا انعام!) سورہا ہے اور اس کی خرخراہٹ کی آواز یہاں تک آرہی ہے۔ رشید اپنے خیالات سے عاجز آکر اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور بہت مضطرب حالت میں کمرے میں ٹہلنے لگتا ہے اوراپنے دل سے باتیں کرنے لگتا ہے۔’’غربت اچھی کہ نئی دنیا، نیا آسمان نئے مناظر پیش نظر ہوتے ہیں۔نہیں، وطن اچھا کہ پرانے دوست، پرانے رفیق، جانی پہچانی آوازیں، جانی پہچانی صورتیں، سنائی دیتی ہیں، دکھائی دیتی ہیں۔نہیں غربت اچھی جس میں ہر تجربہ نیا، ہر بات نئی، جو دو آدمی ملتے ہیں گویا دو دریا ہیں کہ پہلے جدا جدا بہ رہے تھے، اب سنگم ہوا۔نہیں، وطن اچھا جہاں پرانے دوست گویا دو پودے ہیں کہ ایک دوسرے سے لپٹے ہوئے اگے اور بڑھے۔نہیں غربت اچھی جہاں دوست نما دشمن اور آشنا صورت اغیار تو نہیں ہوتے جن کی مدارات کرنی پڑے۔ جہاں غیر یہ صاف کہہ کے ملتا ہے کہ میں غیر ہوں اور دوست، آہ! دوست نہیں تو شنا سا بن کے جدا ہوتا ہے۔نہیں وطن اچھا جہاں وہ آدمی نہیں ملتے جن سے دل میں حس محبت پیدا ہو نہ یاد ایام گزشتہ۔نہیں نہیں بے یار نہ غربت اچھی نہ وطن اچھا اور بایار۔۔۔ یہ ان خوش نصیبوں سے پوچھیے جو یاد رکھتے ہیں۔‘‘رشید ایک آرام کرسی میں گر پڑتا ہے اور پھر خاموش خیال میں محو ہوجاتا ہے۔ پھر تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد کاغذ کے ٹکڑے پر پنسل سے کچھ لکھتا جاتا ہے۔یہ ایک زائیدہ اضطراب غزل تھی جسے وہ تسکین خاطر کے لیے کونے میں رکھے ہوئے ہارمونیم پر جاکر بجاتا ہے۔غزلبنے ہیں ہونٹ مرے نالہ و فغاں کے لیےہے سینہ وقف مرا سوزش نہاں کے لیےکوئی زمانہ کا شاکی، کوئی فلک کا ہےہمارے سارے گلے اپنے مہرباں کے لیےہلاک کرکے رہے گا، مجھے تغافل دوستہے اک نگاہ کا اغماض نیم جاں کے لیےڈھونڈ، ڈھونڈ کے سب مجھ پہ مشق اے احبابرہے نہ طرز ستم کوئی آسماں کے لیےہوئے جو طعنہ اعدا کبھی ذرا کو بندزباں سے کام اعزا نے خود سناں کے لیےگڑک چمک تو نہ اے برق اس سے کیا حاصلشرارہ ایک تھا کافی اس آشیاں کے لیےمرا جو حصہ ہے، وہ مجھ کو اے مصیبت دےہوا کرے ہے اگر عیش کل جہاں کے لیےچمن میں بلبل مہجور کی نہیں کچھ یادتڑپ رہی ہے قفس میں وہ بوستاں کے لئےبھلا دے یاد وطن جب میں جانوں اے غربتوطن کا عشق ہے اک روگ میری جاں کے لئےمقابل کے مکاں کی کھڑکی کھلتی ہے اور رشید کا پڑوسی اس شہر کی زبان میں کہتا ہے۔’’مسٹر رشید! شاید آج آپ کے وطن سے کوئی بڑی خوشخبری آئی ہے۔ اگرچہ مجھے معلوم نہیں کہ وہ کیا ہے۔ لیکن میں آپ کو مبارکباد دیتا ہوں (اور ذرا معترضانہ تبسم سے) مگر آدھی رات کو تو خوشی نہ منانی چاہیے۔‘‘