غرناطہ میں ایک شام

ہسپانیہ کے شہر غرناطہ میں، جہاں الحمرا ہے

 

ہسپانیہ تُو خون مسلماں  کا امیں ہے

مانند حرم پاک ہے تُو میری نظر میں

پوشیدہ تری خاک میں سجدوں کے نشاں ہیں

خاموش اذانیں ہیں تری باد سحر میں

 

روایت مشہور ہے کہ ایک خانہ بدوش عورت نے غرناطہ میں ایک اندھے فقیر کے بارے میں کہا تھا کہ

" اے لوگو! اسے زیادہ بھیک دو۔  کیوں کہ اس شخص سے زیادہ بدنصیب کون ہو گا، کہ  جو غرناطہ  میں ہو اور اندھا ہو۔"

 میں آج اسی الحمرا میں تھا اور اس کے حسن سے اپنی آنکھیں خیرہ کر رہا تھا۔

1031ء میں مرکزی اموی بادشاہت کے ختم ہونے کے بعد اندلس مختلف ریاستوں میں بٹ گیا۔ 1230ء میں غرناطہ پر بنو نصر کی حکومت قائم ہو گئی، جس کا بانی محمد ابوالحسن بن النصر تھا۔ الحمرا، ایک پہاڑی السبیقہ پر بنایا گیا تھا۔اس کے تین حصے ہیں، جنت العریف، جو باغ اور فواروں پر مشتمل ہے۔ القصبہ ، دفاعی برج اور فوجی بیرکوں پر مشتمل ہے اور النصری محل، یہی بنو نصر کا تعمیر کردہ محل ہے جو خوبصورتی اور جاذبیت کا مرقع ہے۔کہتے ہیں کہ نصری بادشاہوں نے قرآن میں جنت کی منظر کشی سے متاثر ہو کر یہ جنت العریف تعمیر کرایا تھا۔پہاڑی پر بنی ان تینوں عمارتوں کے گرد سرخ رنگ کی فصیل ہے۔ اسی سرخ رنگ کی مناسبت سے اسے الحمرا کہتے ہیں۔اس کے حسن نے  پورے غرناطہ شہر کو اپنے سائے سے ڈھانپ رکھا ہے۔

 

محل کا سب سے خوبصورت حصہ،"Court of Lions"   ہے۔بارہ شیروں کی کمر پر ایک پلیٹ سی رکھی ہے جس میں فوارہ نصب ہے۔اس فوارے اور شیروں کے منہ سے بھی پانی گرتا رہتا ہے۔جی چاہا ان شیروں سے پوچھوں کہ گئے زمانے کی کچھ تو داستان سناؤ۔تم تو اس عروج کے عینی شاہد ہو ، تم تو واقف ہو۔کتنی داستانیں تم نے سن رکھی ہیں اور کتنے واقعات تم نے دیکھ رکھے ہیں۔تم نے اپنے سامنے مسلم حکمرانوں کا جاہ و جلال دیکھا ہو گا اور تمہاری سماعتوں سے اذانوں کے لازوال نغموں کی آواز بھی ٹکرائی ہو گی۔اس زریں عہد کا کچھ حال تو بیان کرو۔مگر یہ شیر خاموش و ساکت کھڑے تھے۔ اور اس لمحے مجھے ان کے منہ سے نکلنے والا فوارے کاپانی بے رحم  تاریخ کے وہ آنسو لگے ، جیسے یہ ہماری اپنی بد اعمالیوں کے ہاتھوں آئے زوال کا نوحہ بیان کرتے ہوں۔

Court of Justice

تلازمۂ خیال نے وہ منظر میری نگاہوں کے سامنے لا کھڑا کیا جب اس ایوان میں انصاف فراہم کیا جاتا تھا۔اور اس کی پیشانی پر لکھا ہوا تھا کہ یہاں انصاف ملتا ہے، اب  اس ایوان کو Mexur  کہتے ہیں۔

 

لا غالب الا اللہ

یعنی اللہ کے سوا کوئی غالب نہیں۔ یہ نصری حکمرانوں کا نعرہ تھا جو سارے محل میں دیواروں، رنگین ٹائلوں،چھت، محرابوں، ستونوں اور دریچوں پر سنگ مرمر میں نقاشی  کر کے لاکھوں کی تعداد میں لکھا گیا ہے۔مقصد آنے والی نسلوں کو ذہن نشین کرانا تھا مگر جب آنے والی نسلیں یہ بھولتی گئیں تو پھر انجام کار میں آخری نصری حکمران، ابو عبداللہ ،بزدلی، بے حمیتی، غداری اور پستی کی علامت بن گیا اور آج تک بنا ہوا ہے۔ جسے اسی محل سے متصل ایک عمارت سے ہی اس کی ماں نے دوپٹے باندھ کر فرار کرایا تھا۔ کہاں یہ پستی اور کہاں وہ بلندی جب اسی ابو عبداللہ کے بہادر اور جری باپ ابوالحسن کو 1476ء میں فرڈینینڈ نے لکھا کہ" اگر تم صلح کرنا چاہتے ہو تو بلا عذر ہمیں خراج دینا منظور کرو۔" تو ابولحسن نے اسے جو جواب لکھا وہ شجاعت کی تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا ہوا آج بھی حوصلہ مندوں کا حوصلہ بڑھاتا ہے۔ ابوالحسن نے لکھا، " غرناطہ کے دارالضرب میں اب سونے کے عوض فولادی شمشیریں اور سنانیں عیسائیوں کے جگر چاک کرنے کی غرض سے تیار ہوتی ہیں۔"۔

 

اسی محل  میں فتح کے بعد خوشی سے پھولے نہ سماتی ہوئی ملکہ ازابیلا سے، موقع سے فائدہ اٹھاتے کولمبس نے "ہندوستان" دریافت کرنے کی اجازت اور دولت لی ۔

کولمبس نے  ملکہ ازابیلا سے کہا تھا،" نئی دنیا کی دریافت میں میری مدد کیجئے۔میں یقین دلاتا ہوں کہ آپ کے تاج کے ہیروں میں ایک اور قیمتی ہیرے کا اضافہ ہو گا۔" اور ملکہ نے اجازت دے دی تھی اور کولمبس نے امریکہ دریافت کر لیا تھا۔ اس سفر میں اس کا ایک دوست امریکانو بھی اس کے ساتھ تھا۔یہ امریکانو تھا جس نے بعد میں ثابت کیا کہ کولمبس نے انڈیا دریافت نہیں کیا بلکہ ایک نئی سرزمین دریافت کی ہے، ورنہ کولمبس یہی سمجھتا رہا کہ اس نے انڈیا دریافت کیا ہے ۔ اسی لئے اس نے پہلے جو لوگ وہاں دیکھے انہیں " ریڈ انڈین" کا خطاب دیا۔اسی امریکانو کے نام پر نئے دریافت کردہ ملک کا نام امریکہ یا امریکا رکھا گیا۔

چشمِ تصور سے میں اسی محل میں ابن خلدون کو بھی اسنادِسفارت پیش کرتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔

یہیں ساتھ والی عمارت میں پہلی منزل پر وہ کمرہ بھی ہے جس میں بیٹھ کر واشنگٹن ارونگ نےTales of the Alhambra  لکھی تھیں۔انہی کہانیوں کے ذریعے ہی الحمرا جیسے شاہکار سے دنیا واقف ہوئی تھی اور اس کی طرف متوجہ بھی۔

ورنہ شاید دنیا کی نظروں سے الحمرا اوجھل ہی رہتا اور اس کا حسن دنیا پر کبھی عیاں نہ ہوتا۔