غزلوں کی دھنک اوڑھ مرے شعلہ بدن تو

غزلوں کی دھنک اوڑھ مرے شعلہ بدن تو
ہے میرا سخن تو مرا موضوع سخن تو


کلیوں کی طرح پھوٹ سر شاخ تمنا
خوشبو کی طرح پھیل چمن تا بہ چمن تو


نازل ہو کبھی ذہن پہ آیات کی صورت
آیات میں ڈھل جا کبھی جبریل دہن تو


اب کیوں نہ سجاؤں میں تجھے دیدہ و دل میں
لگتا ہے اندھیرے میں سویرے کی کرن تو


پہلے نہ کوئی رمز سخن تھی نہ کنایہ
اب نقطۂ تکمیل ہنر محور فن تو


یہ کم تو نہیں تو مرا معیار نظر ہے
اے دوست مرے واسطے کچھ اور نہ بن تو


ممکن ہو تو رہنے دے مجھے ظلمت جاں میں
ڈھونڈے گا کہاں چاندنی راتوں کا کفن تو