غزل گوئی کے فن کا یوں کبھی اظہار ہوتا ہے
غزل گوئی کے فن کا یوں کبھی اظہار ہوتا ہے
محبت دل سے ہوتی ہے نظر سے پیار ہوتا ہے
تصادم دو نگاہوں کا بھی کیا کیا گل کھلاتا ہے
صمیم قلب سے پھر عشق کا اقرار ہوتا ہے
محبت کرنے والوں کا حسین انجام کیا جانو
شگفتہ پھول کھلتے ہیں گل گلزار ہوتا ہے
وہ جس سے پیار کرتا ہے اسی کی چاہ میں ہر دم
مریض عشق بن بن کر صدا بیمار ہوتا ہے
زمانے کی جفاؤں کا کوئی شکوہ نہیں ہرگز
وہ مقتل میں سجاتا ہے جو خود دل دار ہوتا ہے
دھڑکتے دل سے اک دوجے کی بانہوں میں سما جاتا
کہو اے شادؔ یہی انجام آخر ہوتا ہے