غموں کی بھیڑ دردوں کی نگہبانی میں رہنا ہے

غموں کی بھیڑ دردوں کی نگہبانی میں رہنا ہے
بتا اے زندگی کب تک پریشانی میں رہنا ہے


شجر کا یہ مقدر طے کرے گا باغباں سن لو
اسے سر سبز ہونا ہے کہ ویرانی میں رہنا ہے


میں اپنا حق بھی مانگوں تو گناہوں میں وہ شامل ہے
تمہارا ظلم کب تک یوں فراوانی میں رہنا ہے


وفاؤں کا صلہ کس کو ملا کب کون جانے ہے
وفا کے ذکر میں ہم کو تو سلطانی میں رہنا ہے


وہ اپنے قول سے واپس پلٹ جائے اسے حق ہے
تپشؔ ہم کو تو اپنی بات کے پانی میں رہنا ہے