غم اس کا کچھ نہیں ہے کہ میں کام آ گیا

غم اس کا کچھ نہیں ہے کہ میں کام آ گیا
غم یہ ہے قاتلوں میں ترا نام آ گیا


جگنو جلے بجھے مری پلکوں پہ صبح تک
جب بھی ترا خیال سر شام آ گیا


محسوس کر رہا ہوں میں خوشبو کی بازگشت
شاید ترے لبوں پہ مرا نام آ گیا


کچھ دوستوں نے پوچھا بتاؤ غزل ہے کیا
بے ساختہ لبوں پہ ترا نام آ گیا


میں نے تو ایک لاش کی دی تھی خبر فرازؔ
الٹا مجھی پہ قتل کا الزام آ گیا