فرانس میں حجاب کے خلاف مہم جوئی

فرانس میں  حجاب پر پابندی اور مسلم خواتین فٹ بالرز کی جد و جہد

مصنف: جیسی ویلیمز

فرانسیسی  خاتون کھلاڑی Founé Diawara کی عمر 15 برس تھی جب انہیں پہلی بار بتایا گیا کہ وہ فٹ بال میچ میں اپنا حجاب نہیں پہن سکتیں۔  وہ فرانسیسی مسلمان فٹ بالر تھیں، جو فٹ بال  کا جنون کی حد تک شوق رکھتی تھیں۔

یہ ایک اہم  میچ تھا۔ وہ حال ہی میں پیرس کے شمال مشرق میں واقع قصبے میوکس میں ایک کلب کی ٹیم میں شامل ہوئی تھی ۔  وہ یہیں پلی بڑی تھی۔  ۔ ان کی ٹیم کا  میچ ایک مقامی حریف کے  ساتھ تھا۔ دیاورا نے ٹریننگ کے دوران اپنا حجاب پہن رکھا تھا، لیکن جب وہ  میدان  میں میچ کے  لیے جانے لگیں، ریفری نے کہا کہ اگر وہ کھیلنا چاہتی ہیں تو  انہیں حجاب ہٹا دینا  ہوگا۔ کیونکہ، فرانس میں فٹ بال کی گورننگ باڈی، فرانسیسی فٹ بال فیڈریشن (ایف ایف ایف) نے کلب کے آفیشل  میچوں میں  خواتین پر حجاب پہننے پر پابندی عائد  کر رکھی تھی۔ ان کی یہ پابندی فرانسیسی خواتین ٹیم کے عالمی میچز پر بھی تھی۔ یہ ایک ایسا اصول  تھا  جو فٹ بال کی بین الاقوامی گورننگ باڈی، فیفا سے  ہٹ کر تھا۔ فیفا نے 2014 میں حجاب پر سے پابندی ہٹا  دی تھی۔ دیاورا نے اپنا حجاب اتارنے سے انکار کر دیا ۔ انہوں نے ریفری کو جواب دیا: "یہ میرے عقائد  کا حصہ ہے۔ یہ ایسی چیز ہے جس کا میں نے   خود انتخاب کیا ہے"۔  ریفری نے ان کی بات ماننے سے انکار کر دیا۔ دیاورا  کو یہ میچ میدان سے باہر بینچ پر بیٹھ کر گزارنا پڑا۔  اپنی ٹیم کو   اپنے بغیر کھیلتا  دیکھنا دیاورا کے لیے خاصا تکلیف دہ تھا۔

اب وہ 21 سال کی ہیں، اور پیرس میں ماسٹرز کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ دیاورا نے  کہا  کہ اس تجربے نے انہیں خاصا غصہ  دلایا تھا اور وہ فٹ بال کمیونٹی سے الگ تھلگ محسوس کرنے لگیں تھیں۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ گویا  ان کا تعلق فٹ بال ٹیم سے نہیں ہے۔

"میں اپنے جنون یعنی فٹ بال  اور ایسی چیز کے درمیان پھنس گئی  تھی جو میری شناخت کا ایک بہت بڑا حصہ ہے۔ یہ بالکل ایسا تھا کہ جیسے انہوں نے مجھے یہ بتانے کی کوشش کی کہ مجھے دونوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا  ہوگا۔ "

دیاورا  نے اپنے ساتھ ناانصافی پر غصے کو عملی جامہ پہنایا۔  اب وہ  "لے حجابیز"

  Les Hijabeuses  

   (یعنی حجاب والیاں) کی شریک صدر ہیں، جو فرانسیسی  نوجوان حجاب آراء  خواتین  فٹ بالرز کی تنظیم ہے۔   یہ تنظیم ،  FFF کی  حجاب پر پابندی کے خلاف مہم چلا رہی ہے۔  ان کی یہ کاوش فرانس میں تمام  مذاہب کی شمولیت پر مبنی معاشرہ قائم کرنے  کی  طرف قدم ہے۔ کیونکہ، فرانس میں  انتہائی دائیں بازو کے گروہوں  کے ابھرنے کی وجہ سے اسلامو فوبیا میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

حجاب والیوں کی یہ تنظیم ،  فرانس میں سماجی ناانصافیوں کے خلاف مہم چلانے والے سٹیزنز الائنس کے کمیونٹی آرگنائزرز نے مئی 2020 میں تشکیل دی۔ اب  پیرس میں قائم   اس تنظیم کے 100 سے زیادہ اراکین ہیں۔ وہ ایک ساتھ فٹ بال کھیلتے ہیں، فرانس بھر کی دوسری ٹیموں سے  مقابلہ کرتے ہیں اور حجاب پہننے والی دیگر نوجوان خواتین کو فٹ بال میں آنے کی ترغیب دینے کے لیے تربیتی سیشنز میں حصہ لیتے ہیں۔

Les Hijabeuses

 19 سالہ Hawa Doucouré کے  لیے  بالکل گھر کی طرح  ہے۔ Hawa Doucouré یونیورسٹی میں کمپیوٹر سائنس کی طالبہ ہے۔ "وہ مجھے  فٹ بال کھیلنے پر ابھارتے ہیں اور میری حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔  Hawa Doucouré  نے اپنے ایک بیان میں کہا۔ فٹ بال ہمیشہ اس کی زندگی کا ایک  اہم جز رہا ہے۔  وہ ہر ہفتہ کی دوپہر اپنے  گھر والوں کے ساتھ  فٹ بال   کھیلتی  ہیں اور اس کا میچ دیکھنا پسند  کرتی  ہیں۔  Hawa Doucouré نے کہا کہ ایک عورت کے طور پر، میں واقعتاً کبھی آگے نہیں بڑھی اور  کبھی  کلب  کی طرف سے نہیں  کھیلی۔ لیکن لے حجابیز نے مجھے ایک کلب کی طرف سے کھیلنے کا موقع فراہم کیا۔ 

حجابیوں کی ایک اور رکن لیلا کیلو کہتی ہیں کہ  وہ الجزائر  اور  فرانس دونوں کا پس منظر رکھتی ہیں۔ ان  دونون کا پس منظر ان کے  خون میں فٹ بال کی شدید محبت   کا ذمہ دار ہے۔ 29  سالہ یہ خاتون جو ٹی وی سٹیشن Canal+ میں کام  کرتی  ہیں انہوں  نے 19 سال کی عمر میں حجاب پہننا شروع کیا کیونکہ "یہ  ان کے روحانی اور ذاتی یقین کا فطری راستہ تھا"۔

وہ سمجھ نہیں پا رہی ہیں کہ فرانس میں کچھ لوگ یہ کیوں  سمجھتے ہیں کہ مسلمان خواتین کو حجاب پہننے پر مجبور کیا جاتا ہے۔  وہ آخر اپنی مرضی سے حجاب پہننے  والی حقیقی  خواتین  کے نقطہ نظر کو سننے سے کیوں انکاری ہیں۔

بہت سے کھلاڑیوں کے لیے، لے حجابیز ایک پناہ گاہ کی  طرح ہے۔ ڈیجیٹل کمیونیکیشنز میں ایک 18 سالہ طالب علم Karthum Dembélé بھی اس کا حصہ ہیں۔

Dembélé  اس تنظیم کو  اپنے لیے ایک محفوظ جگہ  کے طور پر بیان کرتی  ہیں۔ وہ کہتی ہیں: "تمام  کھلاڑی ایک دوسرے کے ساتھ بہت مہربان  ہیں۔ ہم بہت کچھ شیئر کرتے  اور بہت ہنستے ہیں۔  میں ایک پیشہ ور فٹبالر بننا  چاہتی  ہوں، لیکن اگر FFF کی پابندی برقرار رہتی ہے، تو ایک  لمحہ ایسا آئے گا جب میں مزید آگے نہیں جا سکوں گی"۔  

اسی طرح لے حجابیز کی ایک اور ممبر بوچرا چائب کی پسندیدہ پوزیشن گول کیپر ہے۔ پیرس کے شمال میں سینٹ ڈینس سے تعلق رکھنے والی 27 سالہ مڈوائف،  حجاب اوڑھنے والی  جرات مند خواتین کی اس تنظیم   کی دوسری شریک  بانی ہیں۔ جب بھی   انہیں موقع ملتا ہے تو وہ فٹ بال کھیلتی ہیں۔ کھیل کے دوران  Chaïb ایک ہیڈ گارڈ    پہنتی ہیں، جیسا کہ رگبی میں پہنا جاتا ہے، جو ان کے زیادہ تر بالوں کو ڈھانپتا ہے اور عام طور پر FFF قوانین کے تحت بھی اس کی اجازت ہوتی ہے۔ تاہم، ایک دفعہ،  میچ سے پہلے ریفری نے ان سے  اسے اتارنے  کو کہا۔ انہیں کسی قسم کا کوئی موقع فراہم نہیں  کیا گیا کہ وہ وضاحت کر سکیں کہ وہ اسے کیوں پہن کر رکھتی ہیں۔ وہ پشیمان اور خوفزدہ محسوس  کرنے لگیں۔  ان  کے کوچ نے ریفری کو  انہیں کھیلنے کی اجازت دینے پر آمادہ کیا۔ ان سب باتوں پر،

FFF نے تبصرہ کرنے کی درخواست کو مسترد کر دیا اور اس کے بجائے اس کے قوانین اور ایک گائیڈ کی طرف اشارہ کیا جو تنظیم کے غیرجانبداری کے وعدوں کا تعین کرتا ہے۔

مترجم: فرقان احمد

 لنک:

https://www.theguardian.com/global-development/2021/jun/21/les-hijabeuses-the-female-footballers-tackling-frances-on-pitch-hijab-ban