فرانسیسی صدارتی انتخاب : مسلمانوں کے لیے خطرناک صورت حال کیسے بن چکی ہے؟

فرانسیسی صدارتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ  اتوار چوبیس اپریل کو ہونے جا رہا ہے۔  موجودہ صدر ایمانوئل میکرون اور دائیں بازو کی پارٹی نیشنل ریلی کی صدر میرین لاپین مد مقابل ہیں۔     اس صدارتی دوڑ میں سیکولر اور لبرل اقدار کے دعویدار فرانس میں  ساٹھ لاکھ مسلمانوں کی ذاتی و مذہبی  آزادیاں سکڑتی جا رہی ہیں۔ صدر ایمانوئل میکرون نے اپنے پانچ سالہ اقتدار میں مسلمانوں کو اینٹی سیپرٹسٹ لا اور بہت سی مساجد کو بند کر کے  کیسے دبایا ہے ، کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں۔  یہ وہی میکرون ہیں جنہوں نے چارلی ہیبڈو کے گستاخانہ خاکوں کی حمایت کرتے ہوئے انہیں آزادی رائے کے مساوی قرار دیا تھا۔ یہ تو میکرون ہیں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ دوسری طرف جو مد مقابل آئی ہیں، وہ میکرون سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں۔  وہ جو منشور لے کر اپنی  انتخابی مہم کر رہی ہیں اس کا باقاعدہ حصہ ہے کہ وہ عوامی جگہوں پر  مسلمان خواتین کا سر پر سکاف یا چادریں لینا بین کریں گی۔ فرانس میں نقاب پر تو 2010 سے ہی پابندی ہے،  اب مسلمان خواتین سروں کی چادروں سے بھی محروم ہونے جا رہی ہیں۔ فرانس میں بسنے  والے  مسلمانوں کے لیے یہ خاصی مشکل صورتحال ہے۔

میرین لاپین نے  اپنے اس منشور کے حصے کی الگ ہی توجیہ پیش کی ہے۔  پچھلے جمعے کو ایک  مسلمان خاتون نے  میرین کو چیلنج کرتے ہوئے پوچھا کہ آخر انہیں مسلمان خواتین کی چادروں سے مسئلہ کیا ہے؟ وہ کیوں اسے سیاست میں گھسیٹ رہی ہیں؟

انہوں نے کہا کہ سر کی چادریں اسلام کا حصہ نہیں بلکہ اسلام ازم کا حصہ ہیں۔ اسلام ایک مذہب ہے، جس سے مجھے کوئی مسئلہ نہیں۔ جبکہ اسلام ازم ایک نظریہ ہے جو کہ یورپی اقدار کے خلاف ہے۔ میں اس کے خلاف ہوں اور سر کی چادریں اس کا حصہ ہے۔

میکرون نے اس جواب پر تنقیدکی۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایسا کچھ کرنے  کا ارادہ نہیں رکھتے۔ انہوں نے جو انتہا پسند ذہنیت کے حامل مسلمانوں کے خلاف اقدام کرنا تھا وہ اینٹی سیپرٹسٹ لا کے ذریعے کر چکے ہیں۔

اب مسلمانوں کے پاس بہت ہی مشکل انتخاب ہے۔ کیا وہ  ایسی خاتون کو روکنے کے لیے جو ان کے سروں کی چادریں چھیننا چاہتی ہے،  ایسے شخص کو ووٹ دیں جو  گستاخانہ خاکوں کی حمایت کرتا ہے۔ یہ بہت ہی مشکل صورتحال ہے۔

صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں ستر فیصد مسلمانوں نے بائیں بازو کے امیدوار  جین لوک  ملنشن کو ووٹ دیا تھا۔ لیکن وہ بائیس فیصد ووٹ حاصل کر کے تیسرے نمبر پر آئے اور   صدارتی دوڑ سے باہر ہو گئے۔ میکرون نے سب سے زیادہ ستائیس فیصد ووٹ حاصل کیے، جبکہ میرین لاپین نے تئیس فیصد ووٹ حاصل کیے۔

دراصل فرانسیسی صدارتی انتخابات دو مراحل میں ہوتے ہیں۔ پہلے مرحلے میں تمام صدارتی امیدوار براہ راست ووٹنگ کے ذریعے انتخاب لڑتے ہیں۔ اس دفعہ بارہ امیدواران میں سے فرانسیسی عوام کو اپنا صدر منتخب کرنا تھا۔ اگر پہلے مرحلے میں کوئی بھی امیدوار اکاون فیصد ووٹ حاصل نہ کر پائے تو  چودہ روز کے وقفے  سے  دوسرے مرحلے میں پہلے نمبر پر آنے والے دو امید وار آپس میں لڑتے ہیں۔  اس دفعہ میکرون نے ستائیس اور میرین نے تئیس فیصد ووٹ حاصل کیے اور یہ سرفہرست دو امیدوار ہیں۔ دس اپریل کو پہلا مرحلہ انجام پایا اور  اب چوبیس کو دوسرا مرحلہ ہونے جا رہا ہے۔ 

گو رائے عامہ کے پولز بتا رہے ہیں کہ فرانسیسی صدر اب بھی میرین لاپین سے آگے ہیں، لیکن یہ برتری بہت ہی کم ہے۔ اوپر سے جو انتخابی ماحول بنا ہے وہ  لاپین کی حمایت کر رہا ہے۔ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ میرین اور میکرون آمنے سامنے ہیں۔ 2017 میں بھی دونوں آمنے سامنے آئے تھے۔ لیکن اپنے انتہا پسند خیالات کے باعث  میرین میکرون کو مات نہیں دے پائی تھیں۔ ماہرین کے مطابق اس وقت  میکرون کو دو جگہوں پر برتری حاصل تھی۔ ایک تو یہ کہ وہ فرانسیسی سیاست میں نیا چہرہ تھے۔  روز گار کے مواقعوں میں اضافے اور دائیں بازو کے انتہا پسندوں   کے خلاف منشور لیے وہ مضبوط تشخص بنانے میں کامیاب رہے تھے۔  دوسری برتری انہیں اس بات کی تھی کہ لوگ ان کے کام کرنے کے طرز سے آگاہ نہیں تھے۔ اب یہ دونوں برتریاں انہیں حاصل نہیں ہیں۔  وہ فرانس میں روز گار کے مواقعے بڑھانے میں تو کامیاب رہے ہیں لیکن انتہا پسند سیاست دانوں کے خلاف مضبوط دیوار ثابت نہیں ہوئے۔ الٹا مسلمانوں کے خلاف ان کی پالیسیوں نے بہت سی بائیں بازو کی عوام کو  مایوس کیا ہے۔ دوسری طرف ان کے کام کرنے کے طریقہ کار سے بھی اب لوگ آگاہ ہو چکے ہیں۔ وہ ان کے لیے نیا  چہرہ نہیں ہیں۔ بلکہ انہیں اس دفعہ امیروں کا صدر قرار دیا جا رہا ہے۔

ان کی  شخصیت کا یہ تاثر اس لیے بنا ہے کہ انہوں نے امیر فرانسیسیوں پر سے ٹیکس میں کمی کی تھی۔ انہوں نے اپنی شخصیت کا یہ تاثر ختم کرنے کے لیے بہت کوشش کی ہے۔ وہ کہا کرتے ہیں کہ ان کا تعلق ورکنگ کلاس سے ہے۔ لیکن ان کی مخالف ورکنگ کلاس کی ہمدردیاں سمیٹنے میں زیادہ کامیاب ہو رہی ہیں۔ وہ اپنی انتخابی مہم میں یوکرائن جنگ کی وجہ سے  بڑھتی مہنگائی کو کنٹرول کرنے اور متوسط طبقے کے مسائل حل کرنے کی بات کر رہی ہیں۔

لیکن میرین لاپین کی پیوٹن کی تعریف نے دیگر یورپی اقوام کو  پریشان کر رکھا ہے اور وہ انہیں فرانس  کے ڈونلڈ ٹرمپ کے طور پر دیکھ   رہی ہیں، جو کلائمیٹ ڈیل سے نکلنا چاہتی ہیں،میرین یورپین یونین کی اقدار کی بھی کوئی خاص حمایتی نہیں ہیں اور نیٹو میں فرانس کے رول پر بھی نظر ثانی چاہتی ہیں۔ 

اب ہوگا کیا،  یہ تو کھل کر اتوار کو ہی سامنے آئے گا۔ خدا کرے کہ جو بھی ہو اس میں سے مسلمانوں اور انسانیت کے لیے کوئی بہتری کا پہلو سامنے آئے۔

متعلقہ عنوانات