فتنہ زا فکر ہر اک دل سے نکال اچھا ہے

فتنہ زا فکر ہر اک دل سے نکال اچھا ہے
آئے گر حسن خیال اس کو سنبھال اچھا ہے


میرے احساس خودی پر نہ کوئی زد آئے
تو جو دے دے مجھے بے حرف سوال اچھا ہے


آپ مانیں نہ برا گر تو کہوں اے ناصح
صاحب قال سے تو صاحب حال اچھا ہے


بے خیالی نہ رہے خام خیالی سے بچو
دل میں بس جائے جو ان کا ہی خیال اچھا ہے


تیرے رخ پر ہو مسرت تو مرا دل مسرور
تیرے چہرے پہ نہ ہو گرد ملال اچھا ہے


پرسش غم بھی نہیں نیز ملاقات نہیں
آپ کو ہم سے غریبوں کا خیال اچھا ہے


کوئی کہتا ہے مبارک ہو تجھے دور فراق
میں سمجھتا ہوں مگر روز وصال اچھا ہے


ملک گیری کی ہوس میں ہو تو فتنہ خود ہی
اور فتنہ کو مٹائے تو قتال اچھا ہے


بے نیاز غم عقبیٰ جو نظرؔ تجھ کو کرے
آل و اولاد وہ اچھی نہ وہ مال اچھا ہے