فکر جہاں سے کھیلے زور بتاں سے کھیلے
فکر جہاں سے کھیلے زور بتاں سے کھیلے
ہم دور زندگی میں ہر امتحاں سے کھیلے
پھولوں سے کوئی کھیلا کلیوں سے کوئی الجھا
ہم درد آشنا تھے درد نہاں سے کھیلے
جب بچھڑے دوستوں کی یاد آئی بیٹھے بیٹھے
ہم بے قرار ہو کر اشک رواں سے کھیلے
آساں نہ تھا گزرنا کچھ راہ عاشقی سے
ہستی مٹائی اپنی اپنی ہی جاں سے کھیلے
دنیاں کی فکر کیسی عقبیٰ کا خوف کیسا
ساقی کی اک نظر پر ہم دو جہاں سے کھیلے
گو حسن دل ربا ہے دل کی خلش بلا ہے
کھیلے سنبھل کے وہ جو عشق بتاں سے کھیلے
ماضی نے دی صدائیں دیکھا مگر نہ مڑ کر
ہم یوں حبیبؔ اکثر عمر رواں سے کھیلے