فکر بالیدہ کی ندرت سے نکھرتے ہیں خیال
فکر بالیدہ کی ندرت سے نکھرتے ہیں خیال
اور اگر ذہن رسا ہو تو سنورتے ہیں خیال
عقل کب کرتی ہے فرسودہ خیالوں کو قبول
فکر بیدار اگر ہو تو ابھرتے ہیں خیال
جدت فکر سے افکار کو ملتی ہے نمو
حسن کردار کی راہوں سے گزرتے ہیں خیال
ذہن خالق ہے خیالات کا تسلیم مگر
ذہن پر صورت الہام اترتے ہیں خیال
صحبت اقبال کی افکار کو دیتی ہے جلا
ان کی صحبت میں بہت خوب نکھرتے ہیں خیال
منتشر ذہن اگر ہو تو نتیجہ معلوم
صورت کاہ ہواؤں میں بکھرتے ہیں خیال
ذہن کو فکر کی تحریک جو مل جائے قمرؔ
محشرستان کی صورت میں گزرتے ہیں خیال