فریب خوردۂ پیمان یار ہونا تھا

فریب خوردۂ پیمان یار ہونا تھا
رہین کشمکش انتظار ہونا تھا


لکھیں ازل سے تھیں محرومیاں مقدر میں
نشانۂ ستم روزگار ہونا تھا


تغافل آپ کا شیوہ سہی مگر کچھ تو
خیال خاطر امیدوار ہونا تھا


غضب ہوا کہ سحر سے ہی پہلے دل ڈوبا
ابھی کچھ اور شب انتظار ہونا تھا