فالودہ

آپ نے اسد محمد خان کی ٹکڑوں میں کہی کہانی تو ضرور پڑھی ہوگی، مگر میں جو آپ کو سنانے جارہا ہوں، وہ ٹکڑوں میں سنی ہوئی کہانی ہے۔ ہوا یوں کہ گزشتہ چار پانچ سالوں سے معمول کے سفر پر جانے کے لیے میں گھر سے نکلتے ہوئے ایک کہانی کا تانا بانا بن چکا تھا۔ اچھوتا موضوع تھا ، دو ڈھائی گھنٹے کے سفر کے دوران بہت آسانی سے ضبط تحریر میں لایا جاسکتا تھا۔ ٹکٹ لے کر میں بس میں سوار ہوگیا۔ مسافروں کی تعداد زیادہ نہیں تھی۔ میرے برابر والی سیٹ خالی تھی، البتہ اگلی اور پچھلی دونوں نشستوں پر ایک ایک مرد و عورت بیٹھے مسلسل باتیں کررہے تھے۔ ایک ایسا بھی موقع آیا جب جی چاہا کہ میں اپنی نشست تبدیل کرلوں۔ مگر جب دلچسپ اورحیرت انگیز انکشافات ہورہے ہوں تو بھلا کون اٹھ کر جاتا ہے۔ سو میں بھی وہیں بیٹھ رہا۔
سفر کے دوران میں ایک لفظ بھی نہ لکھ پایا۔ جب بس سے اترا تو سوچی ہوئی کہانی بھول چکا تھا مگر ایک نئی کہانی لے کر اترا، آگے پیچھے کی ملی جلی ہوئی آوازوں میں سنی ہوئی اس کہانی کا کوئی آغاز نہیں اور یہ بتانا بھی مشکل ہے کہ کون سا جملہ میری سماعتوں میں پیچھے سے داخل ہوا اور کون سا آگے سے۔ بہرحال اتنا ضرور تھا کہ آگے بیٹھے ہوئے آدمی کی زبان سے بات بات پر گالی نکل رہی تھی اور پیچھے بیٹھی ہوئی عورت کی زبان سے نکلنے والی لفظوں میں حرف سین کی آواز کچھ اس طرح نکلتی تھی جیسے کوئی اپنی زبان میں خم دے کر ادھ کھلے اور مسکراتے ہوئے ہونٹوں سے اندر کی طرف سانس کھینچے جیسے یوں:
سوووو۔۔۔
باقی رہے آگے بیٹھی ہوئی عورت؟
’’ہاں میں بس میں بیٹھ گئی۔ چل پڑی ہے، دیکھ ذرا وقت کیا ہوا ہے۔۔۔ ہاں چار بج رہے ہیں۔ ہم ساڑھے چھ تک پہنچ جائیں گے۔ تم اسٹاپ پر آجانا۔۔۔ کیوں؟ بہت تیز ہورہی ہے۔تم گاڑی تو لے آؤ۔۔۔ کیا؟ ۔۔۔ اسے بھی ابھی خراب ہونا تھا، راجہ کے ہاں سے بدل والو، کون سا ایسا مشکل کام ہے‘‘۔
’’حرامزادے کی تکہ بوٹی کردوں گا۔ اس نے سمجھا کیا ہے۔ اچھو آپا کے ہاں میں نے اسے نجو کی بیٹی سے ایسے گھل مل کر باتیں کرتے دیکھا تھا جیسے کوئی اپنی معشوق سے باتیں کررہا ہو، اور وہ حرام کی جنی ۔۔۔ ارے لڑکیاں تو ہم نے بھی دیکھیں ہیں۔ بلکہ بیسیوں سے واسطہ بھی پڑتا ہے‘‘۔
’’پورے شہر میں بارش ہورہی ہے۔ ریاض بتارہا ہے کہ گاڑی کے وائپر خراب ہیں۔ آخر ابھی بچہ ہے۔ ڈر رہا ہے۔ یہاں بھی ویسے موسم دیکھو بارش کا سا ہی ہورہا ہے۔ ایک دن اور رک جاتے۔ ویسے زبیر احمد کی کمپنی میں وقت کا پتا ہی نہیں چلتا۔ کمال کا آدمی ہے۔ نالج کتنی ہے‘‘۔
’’آدھی سے زیادہ دنیا گھوم رکھی ہے‘‘۔
’’صحیح کہہ رہے ہو۔ ویسے مجھ سے کہہ رہے تھے کہ اس بار رمضان میں عمرے پر جائیں گے۔ میں نے کہا کہ زبیر بھائی ابھی سے۔ میری اس بات پر ایسا کھل کھلا کے ہنسے کہ بس۔ اللہ خوش رکھے انہیں‘‘۔
’’یہ پکوڑے تو کھاؤ‘‘۔
ارے کیا دو گھنٹے کے سفر میں پکوڑے کھاؤں۔ بیس ہزار کوئی اتنی بڑی رقم نہیں ہے۔ مگر آدمی کی بات ہوتی ہے۔ ماں کے جنے کو میں نے اس وقت پیسے دیئے تھے، جب یہ کوڑی کوڑی کو محتاج تھا۔ چاچی ابھی مری نہیں، زندہ ہیں۔ وہ گواہ ہیں۔ ان کے سامنے میں نے اس کے ہاتھ پر کرارے کرارے نوٹ رکھے تھے۔ کمینے کی میرے مال پر اس وقت سے رال ٹپک رہی ہے۔ اب دیکھو اتر آیا ہے نا اپنے حرامی پنے پر۔ مجھے پتاتھا کہ یہ سانپ ہے کبھی نہ کبھی ڈنک ضرور مارے گا۔ مگر میں بھی چھوڑنے والا نہیں ہوں۔ پچھوڑاے کی زمین پر جو یہ چار دکانیں بنانے کی سوچ رہا ہے نا ،ذرا اس کی چھت ڈلوالے ،پھر دیکھنا مٹی کے ڈھیر کی طرح ایسے گرواؤں گا کہ اس کے چوتڑوں میں سے ہوا نکل جائے گی۔ کے ڈی اے میں بہت سارے یار دوست ہیں ۔ اور کے ڈی اے ہی میں کیا ،شہر کے بڑے بڑے افسران سے اپنی یاد اللہ ہے۔ یاد ہے اچھے میاں کے بیٹے کو نوکری کیسے ملی تھی۔ نوکریوں پر بین لگا ہوا تھا۔ میں ڈپٹی سیکریٹری صاحب کے پاس چلا گیا۔ ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہوگیا کہ صاحب یہ کام کرنا ہے۔ کہنے لگے تو نے پہلی بار کوئی کام بولا ہے۔ منع کر ہی نہیں سکتا۔ اوردیکھو کھڑے کھڑے کردیا تھا، آخر میں ان بڑے بڑے افسروں کے کام آتا ہوں۔ انہیں خوش کرتا ہوں۔ اس کی دکانیں تڑوانا تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ یہ افسر لوگ ایک مرتبہ اپنے باپ کو منع کردیں گے، مگر ہم جیسے لوگوں کو منع نہیں کریں گے‘‘۔
’’ارے لو، دیکھو میں بھول گئی، ذرا جلدی نمبر ملانا‘‘۔
’’کیوں کیا ہوا؟‘‘۔
’’پرانے لحافوں کی روئی میں نے چھت پر رکھوادی تھی۔ ساری بھیگ گئی ہوگی۔ ہاں ریاض میں بات کرہی ہوں، چھجے پر جو لحافوں کی دو پوٹلیاں رکھی ہیں۔ انہیں اتارلا۔ ورنہ ستیا ناس ہوجائے گا۔ اور جا کر گڈو کو بڑے کا قیمہ لادے۔ پراٹھے بنالے گی۔ بارش کا موسم ہورہا ہے، تمہارے ابا خوش ہوجائیں گے‘‘۔
’’تمہارا حکم سن سن کر ریاض تھک جاتا ہوگا‘‘۔
’’اور تمہارا حکم سن سن کر میں تھک جاتی ہوں‘‘۔
’’میں کہاں حکم دیتا ہوں۔ التجا کرتا ہوں۔ حاضری بھرتا ہوں، تب کہیں جا کر ہمارا نصیب کھلتا ہے‘‘۔
’’کیسے کیسے بہانوں سے وقت نکالتی ہوں۔ میرا ہی دل جانتا ہے۔ اماں کی طبیعت خراب تھی تو دو دن یہاں رہ لی۔ اماں کا بھی بس چل چلاؤ کا سا وقت ہے۔ اماں جب نہیں ہوں گی تو پھر تم سے پوچھوں گی‘‘۔
میں مُسلّے پر بیٹھ جاؤں گا۔ کہ اللہ تمہاری اماں کو ابھی کئی برس اور زندہ رکھے، اور کبھی کبھی بیمار بھی‘‘۔
’’بہت کمینے ہو تم، لو یہاں بھی بارش شروع ہوگئی‘‘۔
’’ہمارے روانہ ہوتے ہی یہاں جل تھل ہوگیا۔ کیا خیال ہے واپس چلیں۔ ایک دن اور رک جائیں‘‘۔
’’اچھی کہی، گھر پر فون کردیا کہ میں آرہی ہوں‘‘۔
’’بول دو کہ بارش میں بس خراب ہوگئی ہے‘‘۔
’’میاں جی! یہ بہانے نہیں چلتے، ایک چھوڑ و دوسری بس ملتی ہے‘‘۔
’’میاں جی ی ی ی ۔۔۔‘‘
’’اور تو کیا۔ تم کسی میاں جی سے کم ہو۔ ویسے دیکھو بارش کتنی اچھی لگ رہی ہے‘‘۔
’’میں سب سمجھتا ہوں کہ کل وہ تم سے کیا کہنا چاہ رہا تھا۔ میں بچہ نہیں ہوں۔ وہ میری ٹانگوں کے نیچے سے نکلا ہوا ہے۔ بھول گیا ہے وہ۔ برابر والی بوا کے چھت پر کاٹھ کباڑ والی کھولی میں۔ لگتا ہے اسے سگریٹ کا داغ یاد نہیں ہے۔ اب سالا ہمارے ہی سامنے سینہ تان کر کھڑا ہونے کی کوشش کررہا ہے۔ جانتا نہیں ہے کہ میں کون ہوں۔ ہم کہتے ہیں سالے تم ہمارے رشتہ دار ہو، خوش رہو۔ اپنا دھندا پانی کرو۔ تم چمار کی اولاد ہمیں انگلی کیے جارہے ہو۔ کبھی اچھے میاں کے گھر پہنچ جاتے ہو، کبھی شمع آپا سے شکایت کرتے ہو‘‘۔
’’اچھا لو یہ کھا لو‘‘۔
’’ارے میرا دل چاہ رہا ہے کہ میں اس کمینے کی تکہ بوٹی کرکے کھا جاؤں۔ وہ تمہیں میرے کریکٹر کے بارے میں بتانا چاہ رہا تھا۔ ابے تم کیا میرا کریکٹر اچھا لو گے۔ میں تو تمہیں دس سال پہلے بتا چکا ہوں کہ تم کو جو چاہیے ملے گا۔ تمہارے کپڑے لتے سے لے کر بناؤ سنگھار تک۔ جتنا چاہو سونا پہنو۔ رانی بن کر رہو۔ تمہاری دن کی ضرورت ہو یا رات کی۔ ایک مرد کی طرح سب پوری کروں گا۔ بس مجھ سے یہ مت پوچھنا کہ یہ پیسہ آتا کہاں سے ہے اور میں دھندہ کیا کرتا ہوں۔ اور نہ یہ پوچھنا کہ میرا مشتاق سے کیا رشتہ ہے‘‘۔
’’میں تم سے کبھی کوئی سوال نہیں کرتی ہوں۔ چلو یہ سب سوکھ رہے ہیں۔ انہیں کھالو‘‘۔
’’یہ بھی کہا تھا نا اس نے تم سے کہ میں بھڑوت گیری کرتا ہوں۔ بچّو میں بتاؤں گا تمہیں کہ بھڑوت گیری کیا ہوتی ہے‘‘۔
’’یہ آگے بیٹھا ہوا آدمی بہت بولے جارہا ہے۔ اور کیسی گندی گندی گالیاں بکھان رہا ہے‘‘۔
’’موقع سے گالیاں تو تمہارے منہ پر بھی بہت آتی ہیں‘‘۔
’’ہر چیز کا اپنا موقع ہوتا ہے۔ پکی ہوئی دال کے اوپر جب گھی کا تڑکا لگا دو تو کیسا مزہ دیتی ہے۔ میرے منہ سے نکلی ہوئی گالی تمہارے دانت کیسے تیز کرتی ہے، مانتے ہو یا نہیں‘‘۔
’’یہ سب باتیں یہیں کرلینا‘‘۔
’’اور کہاں ہوں گی۔ گھنٹے بھر بعد تم اپنی زلیخا کے پاس ہو گے اور میں اپنے یوسف کے پاس‘‘۔
’’کبھی شرف الدین کو تم پر شک تو نہیں ہوا؟‘‘
’’شرف الدین کا تو مجھے پتا نہیں۔ البتہ ریاض کو کھوج لگانے اور کریدنے کی بہت عادت ہے۔ دو تین بار مجھ سے کہہ چکا ہے کہ امی کبھی کبھی آپ نانی سے ملنے اکیلی کیوں چلی جاتی ہیں‘‘۔
’’میرا خیال ہے ابھی آدھا گھنٹہ اور لگے گا‘‘۔
’’کل صبح قبضہ مل جائے تو پھر دیکھنا میں تمہارے لیے کیسا گھر بنواتا ہوں۔ پھر تم بچوں کے ساتھ آرام سے رہنا۔ اپنے ابو امی کے نزدیک۔ دو قدم مارے اور مل آئیں‘‘۔
’’تمہیں خوب آزادی مل جائے گی‘‘۔
’’کیا تمہارے یہاں ہوتے ہوئے مجھے آزادی نہیں ہے۔ جو جی میں آتا ہے کرتا ہوں، جیسے چاہتا ہوں رہتا ہوں۔ اماں زندہ ہوتیں تو تمہیں کبھی دوسرا گھر نہیں بنوانے دیتیں اور وہ بھی حیدر آباد میں‘‘۔
’’یہاں کی گندگی تمہیں مبارک ہو۔ اس شہر نے تو میرا سکون چھین لیا‘‘۔
’’نمبر توملاؤ‘‘۔
’’ہاں گڈو میں بات کررہی ہوں۔ ریاض کہاں ہے۔ ابھی تک تیرے ابا دکان سے نہیں لوٹے۔۔۔ اچھا۔۔۔ وائپر صحیح کروالیے اس نے۔۔۔ اچھا۔۔۔ بس میں پہنچ رہی ہوں۔ تھوڑی دیر میں۔۔۔ تیری نانی نے تیرے لیے بہت اچھا سوٹ کا کپڑا دیا ہے۔۔۔ اپنے ابا کو فون کرکے بول کہ ایسی زبردست بارش میں اب تو گھر آجائیں۔ میں بھی پہنچ رہی ہوں، بتادینا انہیں۔۔۔ اچھا۔۔۔ بس ٹھیک ہے۔
’’تم بھی چیز ہو۔ سوٹ میں نے دلوایا۔ تم نے اپنی اماں کے کھاتے میں ڈال دیا‘‘۔
’’تمہارا کیا مطلب ہے کہ گھر پر ڈھنڈورا پیٹ کر بتاؤں کہ ایک سنار کی بیوی کو ایک لوہار نے کپڑے دلوائے‘‘۔
’’ارے سریے کے اتنے بڑے بیوپاری کو تم نے لوہار بنادیا‘‘۔
’’اس لیے کہ وہ کہاوت مشہور ہے نا، سو سنار کی ایک لوہار کی۔ وہ تم پر فٹ آتی ہے۔اچھا میں یہاں اتر جاؤں گی۔ تم اگلے اسٹاپ پر اترنا‘‘۔
’’میں بھی یہیں اتر جاؤں گا‘‘۔
’’کیا پاگل ہوگئے ہو۔ ریاض نے دیکھ لیاتو، اب وہ بچہ نہیں رہا۔ تم تو میری عزت کا فالودہ بنادو گے‘‘
عزت کے فالودے پر میرے ہنسی نکل گئی، اور یوں یہ سفر بھی ختم ہوا۔ اگلے اسٹاپ پر آگے بیٹھے ہوئے میاں بیوی بھی اپنے درمیان ایک تیسرے کی پرچھائیں کے ساتھ اتر گئے۔ اور اس کے اگلے پر میں، جہاں سے سیدھے ہاتھ والی سڑک پر وہ ہوٹل ہے، جہاں معمول کے مطابق مجھے جانا ہے۔ جس کے ایک کمرے میں رخسار یا اس کی چھوٹی بہن میرا انتظار کررہی ہوگی۔ کیا یہ بتانا ضروری ہے کہ رخسار اور اس کی چھوٹی بہن کون ہیں۔ دراصل مہینے میں دو بار اس شہر کے اسی ہوٹل میں کبھی رخسار اور کبھی اس کی چھوٹی بہن سے میری ملاقات طے ہوتی ہے۔ ایسا گزشتہ پانچ سال سے ہورہا ہے۔ پانچ سال پہلے میرے بیٹے احمر کی ولادت پر میری بیوی کے آپریشن اور اس سے جسمانی تعلق کے خاتمے کے بعد سے رخسار اور اس کی چھوٹی بہن میری ناآسودہ خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ ہیں۔


(۲۰۰۳ء)