فلک سے ہوئے ہیں یہ پیہم اشارے

فلک سے ہوئے ہیں یہ پیہم اشارے
زمیں سے نہیں دور یہ چاند تارے


منور ہوئی میری شام غریباں
کہ یاد آ رہے ہیں وطن کے نظارے


مری زندگی ہے کہ ہے ایک طوفاں
یہ بے چین لہریں یہ بیتاب دھارے


طبیعت نے میری کبھی بھی نہ ڈھونڈے
یہ ساحل سفینے وہ سائے سہارے


الجھ سکتا ہوں اب بھی طوفاں سے ساتھی
یہ کیوں میری کشتی لگا دی کنارے


یہ ہموار و یکساں سی کیا زندگی ہے
نہ آندھی نہ طوفاں نہ شعلے شرارے


کہیں چھین لے مجھ سے پیری نہ آ کر
یہ سینے کی گرمی نظر کے شرارے


ہے بچوں کا اک کھیل یہ زندگی بھی
حسیں جو وہ جیتے حسیں وہ جو ہارے


کبھی پیار کرکے کبھی پیار پا کر
جیے ہم جہاں میں اسی کے سہارے


یہ پتے ہیں لرزاں وہ گل دم بخود
بس اک ہم نہ سمجھیں خزاں کے اشارے


حبیبؔ آپ دنیاں کو پہچانتے ہیں
وہ یہ رنگ بدلے کہ وہ روپ دھارے