فلک پہ شام ڈھلے جو چمکنے لگتے ہیں

فلک پہ شام ڈھلے جو چمکنے لگتے ہیں
وہ تیری آنکھوں میں آ کر دمکنے لگتے ہیں


سکوت شب میں ترا نام جب بھی لیتا ہوں
صحیفے عشق کے دل پر اترنے لگتے ہیں


غموں کی کالی گھٹاؤں کو چیر کر جاناں
تری تجلی کے سورج دہکنے لگتے ہیں


چمن چمن میں کھلے پھول لے کے نام ترا
تصورات کے گلشن مہکنے لگتے ہیں


تری صداؤں کے گھنگھرو فضا میں یوں چھنکے
کہ جیسے باغ میں بلبل چہکنے لگتے ہیں


تو بے ارادہ بھی جب زلف اپنی جھٹکائے
سلگتے دشت پہ بادل برسنے لگتے ہیں


تو جان توڑ کے لیتی ہے جب بھی انگڑائی
خطوط جسم خلا میں ابھرنے لگتے لگتے ہیں


ترے جنوں کا بھی اعجازؔ کیا مداوا ہو
کہ چھیل لیتے ہو جب زخم بھرنے لگتے ہیں