ایک عام آدمی کی کہانی
میں تھکا ماندہ گھر میں داخل ہوا تو ٹھٹھک کر رہ گیا۔ بیوی فرش پر بیٹھی حسب عادت اپنے نصیب کو کوس رہی تھی۔ پہلے تو میں نے معاملے کا اندازہ لگانے کی کوشش کی۔ پھر اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ اس نے اپنی پیشانی پر ہاتھ مار کر بین کرتے ہوئے گویا خود کو کہا کہ اس گھر میں آکر کبھی کوئی سکھ نہیں ملا۔یہ اس کا پرانا شکوہ تھا۔ اس نئی افتاد کے بارے میں اس سے کچھ دریافت کرنے کے بجائے میں کپڑے بدلنے اور منہ ہاتھ دھونے چلا گیا۔ میراذہن اسی الجھن میں گرفتار رہا۔ واپس آیا تو وہ اب تک اسی طرح سر پکڑے بیٹھی تھی اور بیٹی اسے سمجھانے کی ناکام کوشش کررہی تھی۔ میں کھانے کے لیے ڈائیننگ ٹیبل پر جا بیٹھا۔ بیوی نے جلے کٹے لہجے میں بتایا کہ اس وقت کھانے کو گھر میں کچھ نہیں۔میں اس سے الجھانا نہیں چاہتا تھا۔ اس لیے چپ ہی رہا۔ اس نے منہ پھیر کر بتایا:
’’میرے پاس جو پیسے تھے، وہ تمہارا لاڈلا لے گیا‘‘۔
’’تو اب یہ نوبت آگئی ‘‘۔ مجھے غصہ آگیا۔
’’انکار کرتی تو چھین کر لے جاتا‘‘۔
مجھے بپھرا ہوا دیکھ کر بیٹی نے حسب عادت مجھے غصہ نہ کرنے کا مشورہ دیا۔ اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہ تھا۔میرے پاس کچھ رقم تھی۔ اس سے کھانا پکانے کی ضروری اجناس لینے کے لیے محلے کی دکان پرپہنچا۔ مجھے دیکھتے ہی دکاندار نے بگڑ کر بتایا کہ آپ کا بیٹا روزانہ سگریٹ اور دوسری چیزیں ادھار لے جاتا ہے۔ اب کافی رقم بن چکی ہے۔ تقاضا کرتاہوں تو ایک سیاسی جماعت کی دھمکی دیتا ہے۔ میر ا ذہن جھنجھنانے لگا ۔ اس رقم سے میں نے دکاندار کا قرض چکا دیا اورخالی ہاتھ گھر چلا آیا۔ میں نے بیوی کو کوئی بات نہیں بتائی۔اسی طرح میرا بیٹا اکثر گھر سے رقم چرالیا کرتا تھا۔ میں اس سے پوچھ گچھ کرتا تو میری بات ماننے کے بجائے چیخنے لگتا۔ اپنی عزت رکھنے کی خاطر میں مجبوراً چپ سادھ لیتا۔ ایسے موقع پر بیوی بھی مجھے خاموش رہنے کو کہتی۔ یہی نہیں ، کالج کی ماہانہ فیس جمع کرانے کے بجائے وہ نہ جانے کہاں اڑا دیتا۔ وہاں سے نوٹس آتا تو میری پوچھ گچھ پر کوئی مناسب جواب دینے کی بجائے وہاں سے کھسک جاتا۔ میں روکتا تو بدتمیزی پر اتر آتا۔ مجھے اس کے سدھار کی کوئی توقع نہیں رہی تھی۔
گھر کی ضروریات پوری کرنے کے لیے میں اکثر و بیشتر آفس میں اوور ٹائم کرتارہتا۔ اس سے نہ صرف مالی مدد ہو جاتی بلکہ کچھ وقت بیوی کی بدمزاجی سے بھی محفوظ رہتا تھا۔ رات کو جب تھکا ماندہ گھر لوٹتا تو وہ حسب عادت کسی نہ کسی بات پر کج بحثی کرنے لگتی۔ بیٹی اپنی ماں کے مزاج سے واقف تھی، اس لیے مجھے چپ رہنے کا اشارہ کرتی رہتی۔ جہاں بیٹی کا رشتہ طے ہوا تھا، انہوں نے شایان شان جہیز دینے کے لیے طویل فہرست پکڑا دی تھی۔میں مختلف حیلوں سے شادی کو ٹالتارہا۔ وہ انتظار کرتے کرتے اب بیزار ہو چکے تھے۔ بیوی اٹھتے بیٹھتے مجھے یہی طعنے دیتی رہتی۔ قلاش آدمی کی بیٹی کی شادی کسی اچھے گھرانے میں نہیں ہوسکتی۔ تم اسے گھر میں بٹھائے رکھو۔ میں کوئی جواب نہ دیتا۔ کیونکہ اس طرح اور بدمزگی پیداہوجاتی۔ ایسی نازک صورت حال میں کبھی بیٹا گھر میں داخل ہوتا تو یہ سب دیکھ کر جھنجھلاجاتا: ’’اسی لیے میراجی گھر میں نہیں لگتا‘‘۔
اس بہانے وہ الٹے پاؤں لوٹ جاتا۔گھر کے ماحول میں ہر وقت تناؤ سا رہتا تھا۔ بیٹی کوبخوبی احساس تھا کہ یہ سب اس کی ماں کی بدمزاجی کی وجہ سے تھامگر کچھ کہہ نہ پاتی کیونکہ ہر لمحے ہنگامے کا اندیشہ رہتا تھا۔ ایک شام اوور ٹائم کرکے میں آفس سے نکلا تو شہر کی حالت بدلی ہوئی نظر آئی۔ سڑک سے ٹریفک غائب اوربازار بند۔ میں نے حیران ہو کرایک راہ گیر سے سبب دریافت کیا تو پہلے اس نے مجھے تعجب سے دیکھا، پھر بتایا کہ کسی سیاسی جماعت کے کارکن کو قتل کر دیا گیا ہے۔ اسی لیے یہ ہڑتال ہوئی ہے۔ ویسے بھی اس شہر میں ہڑتال کی کوئی وجہ نہیں ہوتی، بس ہو جاتی ہے۔لاشعوری طور پر سب سے پہلے مجھے یہی خیال آیا کہ کہیں میرا بیٹا کسی فساد میں ملوث نہ ہوجائے۔ میں گھر والوں کو اپنی خیریت بتانا چاہتا تھا مگر موبائل فون نہ ہونے کی وجہ سے مجبور ہوگیا۔ چند روز قبل میرا موبائل فون گھر سے غائب ہو گیا تھا۔۔۔ وقفے وقفے سے کوئی رکشہ نظر آتا تو میں اس کے پیچھے لپکتا۔ شہر کی ایسی صورت حال سے رکشہ ٹیکسی والے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ مجھے یہ اندازہ تھا مگر مجبوراً ایک رکشے کو رکنے کا اشارہ کیا۔ میں نے جگہ کا نام بتایا تو اس نے میرے اندازے سے کہیں زیادہ کرایہ مانگا اس لیے میں نے پیدل گھر جانے کاارادہ کیا۔ آگے بڑھا تو ایک ویگن آکررکی۔ لوگ نہ صرف اس کی چھت پر سوار تھے بلکہ گیٹ سے باہر تک نکلے ہوئے تھے۔ دو تین مسافر اترے تو میں اپنی تمام قوت استعمال کرکے ویگن میں سوارہوگیا۔ گرمی اور حبس کی وجہ سے سانس لینا دشوار ہورہا تھا۔ مسافر حسب معمول ایک دوسرے سے الجھتے اورسیٹوں پر بیٹھے بوڑھے سیاست پر خیال آرائی کرتے رہے۔ میں نے سوچا کہ شاید پاکستان وقت سے بہت پہلے آزاد ہو گیا تھا۔ میرا سٹاپ آیا تو گیٹ پر دھب دھب کرنے کے باوجود ویگن نہیں رکی بلکہ صرف اس کی رفتارکم ہوئی۔مجھے کود کر اترنا پڑا۔ ایسا محسوس ہوا گویا میں خود نہیں اترا بلکہ مجھے باہر کی طرف دھکیلا گیا۔
گھر پہنچا تو بیٹی نے مجھے دیکھتے ہی اطمینان کا سانس لیا۔ گرمی کی وجہ سے پنکھا آن کیا تو بجلی غائب تھی۔ منہ ہاتھ دھونے کے لیے واش بیسن کے نلوں میں پانی نہیں آرہا تھا۔ میری کوفت میں مزید اضافہ ہوگیا۔ حسب عادت بیوی مجھے دیکھ کر برا سامنہ بناتی رہی۔ اب شاید اس کا چہرہ ویسا ہی ہو چکا تھا۔ میں نے اوور ٹائم کی رقم اس کے ہاتھ پر رکھ دی۔ اس کے باوجود اس کا موڈ اسی طرح بگڑارہا۔ میں نے وجہ معلوم کرنے کے لیے بیٹی کی طرف دیکھا تو اس نے گردن جھکا لی۔ اب مجھے پریشانی لاحق ہوگئی۔ میں نے جھلا کر بیوی سے پوچھا ’’آخر کیاہوا؟‘‘
’’وہی جس کا خوف تھا‘‘۔ اس نے تنک کر جواب دیا۔
لمحے بھر میں کئی برے برے خیالات میرے ذہن میں گھوم گئے۔ بیٹی وہاں سے اٹھ کر چلی گئی۔ میں نے بیوی کو پھر کریدا۔ تب اس نے طنزیہ لہجے میں بتایا۔ ’’لڑکے والوں نے رشتے سے انکارکردیا‘‘۔
’’کیوں؟‘‘ میں اچھل پڑا۔
’’کوئی وجہ نہیں بتائی‘‘۔ اس نے سرتھام لیا۔
’’کچھ پوچھا تو ہوتا‘‘۔
بیوی نے مجھے حقارت سے دیکھا اورجلے کٹے لہجے میں جواب دیا ’’انجان کیوں بنے ہوئے ہو؟‘‘۔
اب میں اس کی بات کی تہہ تک پہنچ گیا تھا۔
’’اپنی سی محنت کرتورہا ہوں‘‘۔ شکستہ لہجے میں جواب دیتے ہوئے میں اپنا سر تھامے پلنگ پر بیٹھ گیا۔ اس نے بگڑ کر پھر کہا: ’’آخر وہ کب تک انتظار کرتے‘‘۔
اپنی بے بسی پر میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہہ نکلے۔ اسی لمحے بیٹا داخل ہوا۔ وہ مجھ پر طنزیہ انداز میں ہنسا۔ شاید اس نے ساری بات سن لی تھی۔ پھراسی طرح ہنستا ہوا واپس چلا گیا۔ اب بیوی نے مجھے حسب عادت نفرت سے دیکھا ’’تمہارا زندہ رہنا ہمارے لیے بیکار ہے‘‘۔
کوئی جواب دینے کے بجائے میں اسے پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھتا رہا۔ اپنے آپ کو پلنگ پر گرا کر میں اپنے حالات کے متعلق سوچنے لگا۔ نہ جانے کس وقت آنکھ لگ گئی۔ شاید ابھی زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ دروازے پر زوردار دستک سے میں ہڑبڑا کر جاگ اٹھا۔ میں نے جا کر دروازہ کھولا۔ پڑوسی نے طنزیہ انداز میں بتایا: ’’تمہارا بیٹا ڈکیتی کے جرم میں گرفتار ہوگیا‘‘۔
یہ بتا کر وہ الٹے قدم واپس چلا گیا۔ چند لمحے میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ میرا ذہن ماؤف ہو گیا۔ یہ سن کر بیٹی رونے لگی اور بیوی نے اپنا فقرہ دہرایا کہ اس گھر میں آکر اس کی قسمت پھوٹ گئی۔ اسے خود اپنی تربیت میں کبھی کوئی نقص نظر نہیں آیا۔ بیٹی نے روتے ہوئے کہا کہ بھیا کے لیے کچھ کیجئے۔ بیوی نے مجھے اسی انداز سے دیکھا مگرچپ رہی۔ میں بھاری قدموں سے علاقے کے تھانے پہنچا۔ یہ میرا پہلا تجربہ تھا۔جب تھانیدار کو معلوم ہوا کہ میں کس مقصد سے آیاہوں تو یکایک اس نے کرخت لہجہ اختیار کر لیا۔ میری کوئی بات نہیں سنی۔ میں مایوس ہو کر اس کے کمرے سے باہر نکلاتو ایک پولیس والا قریب آیا۔ میری کیفیت دیکھ کر اس نے سرگوشی کی صرف ایک ہی ترکیب ہے۔ میں نے اسے سوالیہ انداز میں دیکھا تواس نے بتایا کہ میں تھانیدار کی ٹیبل پر پانچ ہزار روپے رکھ دوں۔ ایف آئی آر کٹ گئی تو کیس بگڑ جائے گا۔ یہ کہہ کر وہ میرے قریب سے ہٹ گیا۔ یہی سوچتاہوا میں مایوس قدموں سے گھر میں داخل ہوا تو بیوی اور بیٹی دونوں میری طرف لپکیں۔ میں نے ساری بات بتائی تو بیٹی رونے لگی اور بیوی نے اپنا سر پکڑ لیا۔ کسی عزیز رشتے دار یا آس پڑوس سے اتنی رقم ادھار ملنے کی کوئی توقع نہیں تھی۔ اب میں اپنی زندگی سے تنگ آچکا تھا۔ چند لمحے چارپائی پربیٹھا کچھ سوچتارہا۔ پھرغیر ارادی طور پرمیرے قدم باہر کی طرف اٹھ گئے۔ میرے قدموں میں اب جان نہیں رہی تھی۔
گھر سے نکل کر ایک دکان پر جا پہنچا اور اپنی جیبوں کو ٹٹولا۔ چند سکے ہاتھ آئے تو میں نے دکاندار کے سامنے رکھ دئیے۔ اس نے مجھے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ میں نے اپنی آنکھوں میں آئے ہوئے آنسو ضبط کرتے ہوئے صرف اتنا کہا ’’زہر‘‘۔
اس نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے پیسے واپس میری طرف سرکادئیے۔ میں نے اسے سوالیہ انداز میں دیکھا تو اس نے بتایا، ’’اس کی قیمت میں اب بہت اضافہ ہو چکا ہے‘‘۔
’’کیوں؟‘‘
’’مانگ جو بڑھ گئی ہے‘‘۔
یہ کہہ کر وہ اپنے کسی کام میں مصروف ہوگیا۔