دنیا کی کشاکش میں پھنس کر دل غم سے بچانا پڑتا ہے

دنیا کی کشاکش میں پھنس کر دل غم سے بچانا پڑتا ہے
مرجھائی ہوئی کلیوں کو یہاں ہنس ہنس کے کھلانا پڑتا ہے


یوں اپنی تمنا مضطر ہے یوں اپنی محبت ویراں ہے
کانٹے سے بچھے ہیں ہر جانب پلکوں سے اٹھانا پڑتا ہے


کیا عالم ہے بے ہوش میں بھی وا اہل نظر کی نظریں ہیں
محفل میں کسی کے دامن سے دامن کو بچانا پڑتا ہے


جب چاندنی شب میں یاد کسی ظالم کی نہیں جینے دیتی
پھر راز محبت گھبرا کر تاروں سے بتانا پڑتا ہے


یوں درد کی ٹیسیں اٹھتی ہیں یوں صبر کا داماں چھٹتا ہے
ماضی کا فسانہ پھر دل سے ڈر ڈر کے بھلانا پڑتا ہے


کس طنز سے وہ فرماتے ہیں کیا سہل ہے الفت کی منزل
یاں جان گنوانی پڑتی ہے یاں اشک بہانا پڑتا ہے


منجدھار میں اپنے ہاتھوں سے تسنیمؔ ڈبو کر آہ یہاں
ناکام محبت کشتی کو پھر پار لگانا پڑتا ہے