دکھ دیا ہے جس نے دکھ اس کو بتانا چاہئے

دکھ دیا ہے جس نے دکھ اس کو بتانا چاہئے
دل پہ کیا گزری ہے میرے یہ سنانا چاہئے


اس اندھیرے کو بہر صورت مٹانا چاہئے
کچھ نہیں تو اب چراغ دل جلانا چاہئے


فرق خاص و عام رندوں میں نہ اے ساقی رہے
میکدہ میں دور ایک ایسا بھی آنہ چاہئے


دیکھ کر جس کو حقیقت رشک پر مجبور ہو
یوں تصور کی طرح پیکر بنانا چاہئے


بارگاہ میر و سلطاں میں رسائی ہو نہ ہو
دوستوں کے دل میں اے طرزیؔ سمانا چاہئے