ڈرائنگ روم اک گزرگاہ ہے

ایک روزشام ڈھلے میں ایک میڈیکل سٹور سے دوائی لے رہا تھا کہ موبائل پر Miss Callنے متوجہ کیا۔ نمبردیکھا تو اجنبی تھا۔ رانگ نمبر معمول ہوں تو توجہ دینا عبث ٹھہرتا ہے۔ وقت کے ضیاع کے سواکچھ ہاتھ نہیں آتا۔ پانچ منٹ بعد اُسی نمبر سے دوبارہ Miss Call آئی۔ تیسری Miss Callآدھ گھنٹے بعد پھر خاموشی چھاگئی۔
اگلے روز دوپہر میں اُسی نمبر سے ایک مختصر سا SMSرومن اُردو میں موصول ہوا۔
’’کیا میں آپ کے ساتھ رابطے میں رہ سکتی ہوں.....؟‘‘
’’بغیر تعارف کے رابطے بے معنی ہوتے ہیں۔‘‘
’’میرارابطہ بامعنی ہے۔‘‘
’’میں سمجھا نہیں۔ مجھے ثبوت چاہیے، تمہیں بات بھی کرنا ہوگی۔‘‘
’’سر.....!ثبوت تو پیش کردیتی ہوں لیکن بات..... سرِدست ممکن نہیں۔‘‘
’’چلئے ثبوتSMSکیجیے۔‘‘
’’سر..... آپ کی تخلیق ’’میّا‘‘ نے میرا دُکھ بانٹا ہے۔ میرا جی چاہا میں آپ سے رابطے میں رہوں۔ SMSکرنے کی ہمت نہیں ہوپارہی تھی۔‘‘
اِس SMSکے بعد بہت سے دِن بیت گئے اور میں بھول گیا۔ زندگی کی ذمہ داریاں نبھانا بھی ایک مستقل نوعیت کا جاب ہے۔ قریباً مہینے بعد اس کا SMSآیا ’’سر..... سہ پہر کا وقت ہے۔ گہرے بادل چھائے ہیں۔ میں آنگن میں درخت کے نیچے بیٹھی سہ پہر کی چائے پی رہی ہوں۔ یہ میرا روزانہ کا معمول ہے۔ یہ ایسا وقت ہے جس میں مَیں اپنی تنہائی سے ہم کلام ہوتی ہوں۔ کیا آپ میری تنہائی بانٹیں گے؟ میں چائے کے کپ پرآپ کاانتظار کررہی ہوں۔‘‘
’’یہ کہیے بات کرنا آپ کے لیے کیوں ممکن نہیں.....؟‘‘
’’سر..... یہ کتھا SMSمیں نہیں سماسکتی وقت نے مہلت دی تو دِل کا ورق آپ کو پڑھا دوں گی۔‘‘ پھر وہ اکثر سہ پہر کی چائے کے دوران مختصر ساSMSکرتی۔ چائے کے ساتھ جو بھی لوازمات ہوتے بسکٹ، کیک، سموسے، کباب، سب تفصیل بیان کرتی۔ ’’سر.....! آپ کو خبر ہے میرے سامنے ہمیشہ دوکپ رہتے ہیں۔‘‘
’’دو کپ کیوں.....؟‘‘
’’سر..... یہ بھی طویل کہانی ہے۔ میرے من کے بنک میں دُکھ کا Credit دِن بہ دِن بڑھتا جارہا ہے۔ کوئی تو ایسا آئے جو اِسے کیش بھی کرائے۔ سر!..... میں نے اپنے دُکھ اِسی طرح سنبھال کررکھے ہوئے ہیں، جیسے الماری میں بچپن کے گڈیاں پٹولے مجھے بچپن لوٹا دیتے ہیں۔‘‘
دِن روز ڈھل جاتا..... عمر کا ایک حصہ کاٹ کر۔ مہینے میں دو تینSMSاس کا معمول تھے۔ بات کرنے کا موقع اسے میسر آیا نہ میں نے اصرار کیا۔ وہ ایک معمول کی سہ پہر تھی۔ اس نے Bellدی، پہلی گھنٹی، دوسری، تیسری میں نے کال اٹینڈ کرلی۔
’’سر..... سلام پیش کرتی ہوں، لمبی بات نہ ہوپائے گی۔ میں ایک ایسی حویلی کی مکین ہوں جس کی دیواریں آسمان کو چھوتی ہیں۔ یہاں سے عورتوں کے صرف جنازے نکلتے ہیں۔ جیتے جی اُن کی جھلک دیکھنا موت کی پکار پر لبیک کہنے کے مترادف ہے۔ سر..... میں فون بند کرتی ہوں، پھر سہی اللہ حافظ اپنا خیال رکھیے گا۔‘‘
’’میں اکثر سوچتا وہ کیسی تنہائی جھیل رہی ہے۔ اسے کیا غم ہے؟میرے ساتھ اس کا ایک بے معنی رابطہ ہے اس سے اُسے کیا حاصل.....؟‘‘
ایک روز گفتگو کے دوران میں نے اُسے کہا۔
’’یہ تمہارا Mobile Networkبہت مہنگا ہے.....‘‘
’’سر..... پیسہ دراصل ہمارا مسئلہ ہی نہیں ہے۔ میرے پانچ بھائی ہیں، ہرسال کار کا ماڈل بدل لیتے ہیں۔ دولت کی فراوانی ہے، بزنس کے سلسلے میں بھائی شہر سے باہر رہتے ہیں۔ آپ کہیں تو میں آپ کے موبائل نیٹ ورک پر Switch Overکرلیتی ہوں.....‘‘
’’نہیں..... ضروری تو نہیں۔‘‘
’’سر..... آپ کی خاطر طعنے بھی سہہ لیں گے۔‘‘
’’میں سمجھانہیں.....!‘‘
’’سر..... یہ جو موبائل نیٹ ورک ہے نا، یہ بھیStatus Symbolہوگیا ہے ہمارے پورے خاندان میں کسی کے پاس بھی آپ والے موبائل نیٹ ورک کی Simنہیں جب میں Switch Overکروں گی تو سب کواچنبھاہوگا۔ کزنز قہقہے لگائیں گے..... بے چاری غریب ہوگئی ہے..... کوئی کہے گا کنجوسی کی حدہوتی ہے۔ وہ کسی ملاقات پر اپنے Network کی خوبیوں میں اتنے دلائل دیں گے۔ ہلّا گلّا مچائیں گے کہ شور سے چھت اُڑ جائے گی..... لیکن..... سر..... کل سے میں آپ کے لیے Simبدل لوں گی۔‘‘
’’پاگل نہ بنو..... رہنے دو.....‘‘
’’نہیں سر.....‘‘ دِل کی عدالت میں بیٹھا جج فیصلہ سنا کر سائیڈروم میں جاچکا ہے اگلے روز اس نے نئی Simسے مجھے کال کیا۔
’’سر..... آپ کا نمبر بھی Favouriteکرالیا ہے۔ رات گیارہ بجے آپ سے تفصیلی بات کروں گی..... آپ کے پاس وقت ہوگا..... نا۔‘‘
وقت کے ہی تو ہم اسیرہیں۔
گرمیوں کی رات تھی آسمان پر ستاروں کے جھرمٹ ویسے ہی تھے جیسے بچپن میں دادی ماں سے کہانی سنتے سمے ہواکرتے تھے۔ سات ستاروں کا جھرمٹ جسے دادی ماں ’’ترنگڑ‘‘ کانام دیا کرتی تھیں۔ ’’ترنگڑ‘‘ جس میں بھوسہ ڈال کراونٹوں پر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیاجاتا ہے۔ ستارے جن سے پہلے زمانوں میں لوگ سمت نما کاکام لیتے اور راستے طے کرنے میں آسانی رہتی۔ میں اپنے بچپن سے محوِ کلام تھا کہ موبائل کی مخصوص آواز نے متوجہ کیا۔
’’سر..... آپ ٹھیک ہیں۔‘‘
’’اللہ کا کرم ہے۔‘‘
’’سر..... ایک بات کہوں.....؟‘‘
’’کہیے.....!‘‘
’’آپ اپنے طور پر مجھے CallیاSMSکیوں نہیں کرتے۔‘‘
’’اچھا نہیں لگتا۔‘‘
’’میں سمجھی نہیں.....‘‘
’’تمہارے ماحول کا تقاضا ہے کہ تمہاری تکریم کا خیال رکھاجائے۔‘‘
’’سر.....! میں اتنی اچھی نہیں ہوں، میرا اتنا خیال نہ رکھاکریں۔ میں کیسے کہوں ایک خیال رکھنے والا تھا، وہ خواب ہوا.....!‘‘
’’کون.....؟‘‘
’’سر..... وہ جو..... میرا نہیں تھا۔ سہ پہر کی چائے پر اپنا ادھوراکپ چائے کا چھوڑ گیا..... میری زندگی ادھوری رہ گئی۔ تب سے میری میزپر میری چائے کے ساتھ اس کا آدھا کپ بھی موجود رہتا ہے۔ میں نے کرسی بھی اُس جگہ سے نہیں اُٹھائی جہاں سے وہ اُٹھ کر گیا تھا مبادا کسی لمحے اچانک لوٹے اور کرسی آباد ہوجائے..... سر..... وہ میرا تھا، میرے وجود کی مہک اور..... اور.....!‘‘
سسکیوں میں آواز کی تارٹوٹ گئی۔
’’سر..... کہاتھا..... ناکہ ہماری حویلی کی دیواریں آسمان سے باتیں کرتی ہیں۔ ہم گھر سے نکلتی ہیں تو کارتک نوکر پُشت کیے چادریں تانے کھڑے ہوتے ہیں۔ ہم چادروں میں لپٹی کار میں بیٹھتی ہیں۔ کار کے شیشوں پر پردے لگے ہیں۔ فرنٹ اور بیک سیٹ کے درمیان بھی پردہ لگایا گیا ہے تاکہ آئینے میں ڈرائیور عکس نہ دیکھ لے..... سر..... دم گھٹتا ہے میرا۔ لگتا ہے کسی اندھے کنویں میں قید کردی گئی ہوں۔ یہ بھی کوئی زندگی ہوئی جس میں انسان اپنی مرضی سے سانس بھی نہ لے سکے۔ کالج لائف میں دونوکرانیاں مسلسل نگرانی پر مامور رہیں..... ناک اتنی اُونچی ہے کہ کوئی لڑکا میرے والدین کی نظر میں جچتا ہی نہیں اور وہ جو آدھاکپ چائے چھوڑ گیا تھا۔ اس کی جائیداد کم تھی۔‘‘
’’آدھے کپ والا گیا کہاں.....؟‘‘
’’سر..... کہیں نہیں گیا، وہ جابھی کہاں سکتا ہے میرے دل میں بیٹھا ہے۔ باتیں کرتا ہے ہنستا ہے، روتا ہے، ناراض ہوتا ہے، روٹھ جاتا ہے، منالیتی ہوں میں اُسے..... کاش سر.....! جیسے اُسے میرے گھر سے نکالا گیا دِل سے بھی نکال دیاجاتا تو چین سے جی لیتی سر.....! یہ جو دِل کے مکین ہوتے ہیں یہ دِل کی ریاست سے کیوں نہیں نکلتے..... سر.....! آپ میری باتوں سے اُکتا تو نہیں گئے.....؟‘‘
اس کی آواز میں نمی تھی۔ میں اس کی گفتگو انہماک سے سن رہا تھا شاید وہ اپنی تنہائی کا صحرا پاٹنا چاہتی تھی۔
’’سر..... آپ چپ کیوں ہیں.....؟‘‘
’’تمہاری گفتگو کا تاگہ کہیں ٹوٹ نہ جائے..... تم کہو، میں ہمہ تن گوش ہوں۔‘‘
’’سر.....! آپ نے آج تک مجھ سے میرانام نہیں پوچھا۔‘‘
’’بے نام رشتے کو بے نام ہی سفر طے کرنے دو.....!‘‘
’’ہاں..... سر!..... میں کہہ رہی تھی۔ گھرکیا ہے؟ مغلیہ عہد کی حویلی ہے۔ باہر ڈیرے پر میلہ لگا رہتا ہے۔ میرے والد جاگیردار ہیں اور پیر بھی.....! بھائیوں کو سیاست کا چسکہ ہے۔ مجرا بھی معمول کی بات ہے۔ میری کُل کائنات میرا کمرہ ہے۔ کمرے میں ہلکا آسمانی پینٹ ہے، پردوں کا رنگ میچنگ ہے۔ دیوار پرصادقین کی پینٹنگ کے ساتھ تاج محل کی ایک Oil Painting ہے جوایک سہیلی نے تحفہ میں دی تھی۔ کلاسیکی موسیقی کی CD'sہیں، سامنے الماری میں پندرہ بیس انگریزی ناول اور اُردو فکشن جومیرا درد بانٹتے ہیں..... سر میری ایک چھوٹی سی خواہش ہے.....‘‘
’’کہو.....!‘‘
’’آپ سے ایک ملاقات کی خواہش..... صوبہ پنجاب میں ہوتی تو شاید آسان ہوتا لیکن سر!..... کہاں آسان ہونا تھا، دیواریں، آسمان، بلندی، بندشیں، چھوڑیے سر!..... کوئی خواہش نہیں پالنا اب مجھے..... آدھا کپ چائے ہی کافی ہے۔‘‘
باتیں کرتے کرتے وہ چپ ہوگئی، میں سمجھا کال کٹ گئی ہے.....
’’ہیلو..... ہیلو۔‘‘
’’جی..... سر.....!‘‘
’’چپ کیوں اُترآئی ہے.....؟‘‘
’’سر..... میرے گاؤں کارستہ کٹھن ہے۔ خواہش کا کیا ہے، منہ زور ہے زیادہ سے زیادہ پھاڑ کھائے گی نا..... پہلے ہی وجودادھورا ہے۔ آپ میرے شہر کانام ذہن میں محفوظ کرلیجیے شاید کبھی وقت کی اینٹ سرک جائے اور ملاقات کاسامان نکل آئے۔ ایک بڑی شاہراہ سے گزرتے ہوئے آپ کو سائن بورڈ نظر آئے گا جس پر ہماری حویلی کانام درج ہے۔ شاہراہ چھوڑ کر ذیلی سڑک پر ہولیجیے گا چند کلومیٹر بعد گھنے درخت آپ کو خوش آمدید کہیں گے۔ کبھی زندگی میں ایک بار..... سر..... صرف ایک بار، میرے صوبے سے گزر ہو، گھنے درختوں میں حویلی کے اُونچے برج ہیں۔ وہاں لوگوں کا تانتا بندھا ہوگا۔ مجھے ایک SMSکردیجیے گا میرے لیے یہ خوشی بہت ہوگی کہ آپ ایک بار صرف میری خاطر یہاں آئے تھے۔‘‘
وعدہ مشکل تھا۔
کال کٹ گئی۔
دِن پھر اپنے سفر پر نکل کھڑے ہوئے۔
سردیوں کی ایک دوپہر تھی۔
SMS..... مختصر سا..... ’’سر..... آپ کے صوبے میں سانس لے رہی ہوں۔‘‘
’’کس شہر میں؟‘‘
’’لاہور.....‘‘
’’خیریت ہے؟‘‘
’’کزن کی شادی میں آئے ہیں۔ سر!..... اللہ حافظ..... رات میں SMS کروں گی۔‘‘ رات گزرگئی۔ رات میں موبائل Silent Modeپر ہوتا ہے۔ صبح اس کے تین SMSموجود تھے۔
’’سر..... رات کاکھانا فورٹریس اسٹیڈیم کے ایک ہوٹل میں کھایا۔ بہت اچھالگا۔‘‘
دوسرا SMS’’سر..... فورٹریس اسٹیڈیم کی سیر کے دوران میں ایک بک اسٹال پر رُکی آپ کا افسانوی مجموعہ ’’برائے فروخت‘‘ نظرآیا..... سر کتنی خوشی ہوئی مت پوچھئے خرید لیا۔‘‘
تیسرا SMS’’رات میں سوئی نہیں۔ ’’برائے فروخت‘‘ مکمل پڑھ کے سوئی۔
(۲)
میرے موبائل میں اس کے چند SMSمحفوظ ہیں جو میں نے Deleteنہیں کیے..... کیوں Deleteنہیں کیے اس کا میرے پاس کوئی جواب نہیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے بہت سارے سوال ساری عمرلاینحل رہتے ہیں۔ میں SMSترتیب دینے کی کوشش کرتا ہوں۔
’’کسی کو پلکوں میں نہ بساؤ۔ پلکوں میں صرف سپنے بستے ہیں اگربسانا ہے تو دِل میں بساؤ کیونکہ دِل میں صرف اپنے بستے ہیں۔‘‘
یوں راتوں کو نہ جاگو سو لیا کرو
یوں دِل میں آنسو نہ روکو رو لیا کرو
’’سر!..... کیسے ہیں۔ اُمید ہے ٹھیک ہوں گے کبھی کبھی تنہائی اور اُداسی کا کوئی علاج نہیں ہوتا‘‘
’’پھر چاند کھِلا پھر رات ہوئی
پھر دِل نے کہا ہے تیری کمی
پھر یاد کے جھونکے مہک گئے
پھر پاگل ارماں بہک گئے
پھر گزرے لمحوں کی باتیں
پھر جاگی جاگی سی راتیں
پھر ٹھہر گئی پلکوں پہ نمی
پھر دِل نے کہا ہے تیری کمی..... سر..... خبر نہیں کس چیز کی کمی ہے سمجھ نہیں آتی..... اپنا خیال رکھیے گا.....‘‘
نہ ملتا نقدِ جاں دے کر بھی ہم کو
گراں تھا اس قدر سودا کہ ہم بازار چھوڑ آئے

کوئی آئینہ رکھ ایسا کہ خود بھی دکھائی دے جس میں
ضروری ہوتی ہے خود سے بھی ملاقات کبھی کبھی

حیرت تو یہ ہے کہ بخیہ گروں کے ہجوم میں
اک نامراد زخم ہے جو سِل نہیں رہا
موبائل OFFرکھنا میرے مزاج کا حصہ نہیں۔ جیسے شروع میں کہا کہ رات میں Silent Mode پر ہوتا ہے۔ ایک بار بخار کے دوران میں نے موبائل OFFکرکے رکھ دیا۔ جس روز موبائل ONکیا..... اس کا SMSاس کی تڑپ کی گواہی دے رہا تھا۔
’’سر!..... Thats not fairمیں بہت ڈر گئی تھی آپ کا نمبر کیوں بند تھا۔ بہت ڈر لگا مجھے بس ایسا نہ کیا کریں۔ OKاپنا خیال رکھیے گا شب بخیر..... اللہ حافظ۔‘‘
زندگی رواں ہے۔ ہم زمین پر اپنے حصے کا سفر مکمل کرکے سوجائیں گے تو بھی یہ رواں ہوگی۔ میرے من میں تھا کہ کسی روز اس شخص کا پتا معلوم کرنا ہے جو میز پر آدھاکپ چائے چھوڑ گیا اور کرسی جس کے انتظار میں نہیں اُٹھائی گئی۔ جب بھی اِس کی تفصیل معلوم کرنے کو بات کی وہ طرح دے جاتی.....
’’سر..... آپ سمجھنے کی کوشش کیجیے نا.....‘‘
’’کیسے سمجھنے کی کوشش کروں؟‘‘
’’سر..... جو زندگی سے نکل گیا، من کی تلاش سے واپس تو نہیں آئے گا۔‘‘ وہ اپنے دُکھ..... سکھ میرے ساتھ بانٹتی..... الگنی پر ڈالے گئے کپڑوں تک کاذکرکرتی۔ کوئی نئی کتاب، تازہ میوزک کی CD..... اس نے اپنی زندگی کے سارے ورق مجھے سنائے..... میرے دِل کے Rackمیں اِس کی کتابِ زیست محفوظ ہے۔
(۳)
ارادہ باندھا نہ خیال تھا کہ کبھی اس کے شہر کا سفر درپیش ہوگا۔
لیکن ایک دِن پاؤں میں سفر باندھے انھی راہوں سے گزرنا تھا جہاں وہ رہتی تھی۔ اسے Surprizeدینا چاہتا تھا لیکن پھر خیال آیا اگر اس روز وہ گھر پرموجود نہ ہوئی تو اُسے دُکھ ہوگا.....
میں نے اُسے SMSکیا۔
’’سر..... ناممکن..... میں نہیں مانتی، کب.....؟ کس وقت.....؟‘‘
’’ساون کی ایک سہ پہر میں تیرے دیس سے گزروں گا۔ حویلی کے باہر جو ڈیرہ ہے وہاں اُتروں گا۔ درختوں کے درمیان پانی کے جو مٹکے رکھے ہیں، مٹی کے کٹورے میں پانی پیوں گا پھر بڑی شاہراہ سے ہوتا ہوا زندگی کی بھِیڑ میں گم ہوجاؤں گا۔‘‘
’’سر..... آپ مذاق تو نہیں کررہے؟‘‘
’’کیا تیرا میرا مذاق چلتا ہے۔‘‘
ساون کی سہ پہر کون سی اتنی مسافت پرتھی۔ بڑی شاہراہ سے گاڑی میں نے اسی راستے پر ڈال دی جو اس نے سمجھایا تھا، تارکول کی سڑک، کہیں کہیں اونٹوں کے قافلے، سرکنڈوں کے درمیان چرتی بکریوں کے ریوڑ..... جب میں حویلی کی جانب مڑا، سامنے کشادہ اور وسیع ڈیرہ تھا۔ گھنے درختوں کے نیچے دیوہیکل پایوں والی چارپائیاں بچھی تھیں۔ مٹکے رکھے تھے اور ان پر مٹی کے کٹورے دھرے تھے۔ چارپائی پر بیٹھے ایک شخص نے گرم جوشی سے ہاتھ ملایا اور آمد کا مقصد پوچھا.....
’’پیرنواب صاحب کی ملاقات کو آیا ہوں۔‘‘
انہوں نے چارپائی کے سرہانے منقش جھالردار تکیے رکھے۔ میں نے مٹی کے کٹورے میں پانی پینے کی خواہش ظاہر کی.....
’’نواب صاحب کے باہر آنے کاوقت ہے.....‘‘ ایک خشخشی داڑھی والا جس نے سر پر پگڑی جمارکھی تھی..... کہا
ابھی کٹورا میں نے منہ سے لگایا تھا کہ ملازمین میں ہلچل مچی اور پوری فضامؤدب ہوگئی۔ درمیانے قد کا ایک شخص، کاٹن کا کڑکڑاتا سوٹ زیب تن کیے، مونچھیں ترشی ہوئی بال گھنگھریالے پیچھے کی جانب پھینکے ہوئے، پاؤں میں نفیس چپل چمڑے کی، سونے کی انگوٹھیاں دونوں ہاتھوں کی اُنگلیوں میں.....
میں نے اُٹھ کر اُن سے معانقہ کیا۔
’’آپ کا تعارف.....؟‘‘
’’ایک مسافر، سیاح..... بڑی شاہراہ سے گزرتے ہوئے آپ کی ریاست کا بورڈ پڑھا ہم آبلہ پا، صحرانورد یونہی پاؤں میں سفر باندھے گھومتے رہتے ہیں۔ کہیں کوئی منظر روک لے تو لمحہ بھر کو سانس لینے کو رُک جاتے ہیں۔‘‘
وہ زیرلب مسکرائے۔
’’پڑھے لکھے لگتے ہو..... گفتگو کا سلیقہ بھی ہے۔ یونیورسٹی کے زمانے میں ہم نے بھی کئی شوق پال رکھے تھے۔ کتابوں کا شوق بھی رہا اب کتابوں کی جگہ گھوڑوں اورسیاست نے لے لی ہے۔ کتنی دیررُکنا ہے آپ نے.....؟‘‘
’’نواب صاحب..... سفرطویل ہے..... چند ثانیے.....!‘‘
’’ایک کپ چائے ہوجائے مہمان نوازی ہماری روایت اور پہچان ہے۔‘‘
’’جی..... انکار کی جرأت کہاں سے لائی جائے۔‘‘
’’خوب خوب.....!‘‘
میں نے ان کے ساتھ اس آہنی گیٹ کی طرف قدم بڑھائے جس کے دونوں پٹ سیاہ بھاری گولڈن کنڈے، ساتھ ایک متصل منقش دروازہ، قدیم عہد کی تاریخ کاگواہ‘‘
دروازے میں میری دلچسپی دیکھ کر نواب صاحب نے کہا۔
’’منگورہ سے یہ دروازہ ہم مہنگے داموں خریدکرلائے تھے۔‘‘
نواب صاحب اسی دروازے سے اندر چلے گئے۔ وہ میری محبت نہیں تھی پھر بھی عجیب سی بے چینی تھی..... ایک نوکر نے سرگوشی کی۔
’’آپ خوش قسمت ہیں۔‘‘
’’کیسے؟‘‘
نواب صاحب کے ڈرائنگ روم میں منسٹرز اور قریبی دوستوں کے علاوہ اور کوئی داخل نہیں ہوتا.....
جب میں ڈرائنگ روم میں داخل ہوا مجھے سکتہ ہوگیا۔ دیوار پر چیتے کی کھال، دائیں جانب نظر گھومی تو ان کے آباواجداد کی منقش فریموں میں جڑی تصویریں، فرنیچر انتہائی قیمتی، نفیس، شیشے کی ڈائننگ ٹیبل کے گرد چوبیس کرسیاں.....
’’آپ ہمارے مہمان ہیں گوچند لمحوں کے لیے سہی ہماری کوشش ہوگی یہ لمحے آپ کو یاد رہیں۔ موضوعِ سخن کتابیں تھیں، تاریخ اور سیاست.....!‘‘
ایک نوکرانی بے آواز قدموں سے داخل ہوئی اور جوس کے دوگلاس میز پر رکھ کر اسی انداز میں مؤدبانہ لوٹ گئی۔ اگلے چند لمحوں میں اس نے میز پر فروٹ چن دیے۔ چائے میں پیزا، فروٹ کیک، بسکٹ، سموسے قیمہ والے، آلوکے کٹلس.....!‘‘
میں اس لمحے ڈرائنگ روم میں موجود نہیں تھا۔ میں کہاں تھا.....؟ نہیں معلوم..... میں لوٹ جانا چاہتا تھا۔ میں کیوں آیا.....؟ یہاں کیوں گھڑی بھر کو قیام کیا.....؟ چائے کی پیالی ابھی ہونٹوں کے قریب ہی تھی کہ ایک نوکر رکوع کی حالت میں اندر داخل ہوا اور نواب صاحب کو کسی کی آمد کی اطلاع دی..... آنے والا یقیناًاہم تھا کہ نواب صاحب خود چل کر گئے.....
نوکرانی ظاہر ہوئی.....
’’مالکن پوچھ رہی ہیں خدمت میں کوئی کمی رہ جائے تومعاف کردیجیے گا۔‘‘
نوکرانی کو کیا معلوم تھا ’’کمی کس چیز کی ہے!‘‘
چند لمحات..... ثانیے..... وقت کی مٹھی سے پھسل کرگرے۔ پھسلتے لمحوں میں خوف تھا۔ اُمید، آس، خواب اور نہ جانے کیا..... چند ثانیے..... ڈرائنگ روم کے ساتھ ملحقہ کمرے کا دروازہ کھلا..... پردہ سرکا۔
ایک ثانیہ.....
صرف ایک ثانیہ۔
ایک جھلک.....
اس نے ماتھے پر اپنی مرمریں اُنگلیوں کو لے جاکر سلام مکمل کیا۔
اور پھر.....
اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔
ایک ثانیہ.....!
وہ میری محبت نہیں تھی۔
پھر وہ ایک سکینڈ میرے من میں کیوں ٹھہرگیا.....؟’’کیا محبت کے سوا بھی کوئی رشتہ ایسا ہے کہ ایک لمحہ من میں امر ہوجائے؟‘‘
چائے کب پی کر اُٹھا.....؟ نواب صاحب سے وقتِ رُخصت ملنے کا انداز کیا تھا؟ کس کو دیکھا.....؟ کچھ یاد نہیں..... گھنے درخت، مٹکوں پر مٹی کے آب خورے، اُونچے چبوترے پر وہ موروں کا رقص، جنگلے میں پاؤں سمیٹے بیٹھا چیتا.....!
بہت حبس تھا جب میں وہاں سے نکلا.....
وقت کی ہتھیلی پر حالات وواقعات کی ریلوے لائن کی طرح ایک دوسرے کو قطع کرتی ہوئی لکیریں ہیں ان میں اس کی شادی کا بھی اندراج ہے..... اس شادی کے بارے ایک روز اس نے کہا۔
’’سر..... میں خوش اور مطمئن ہوں لیکن جوخوشی میرے حصہ میں آئی ہے اسے سمجھوتہ کہتے ہیں.....‘‘
اس کے بعد وقت کی Calculation ڈسڑب ہے..... SMS اور کال کی کڑیاں بے ترتیب ہیں۔ شادی کے بعد بھی سہ پہر کی چائے اور آدھاکپ چائے جو کوئی بھول گیا تھا موجود تھی۔ میں مطمئن تھا کہ اس نے تنہائی کے اوقات کو ترتیب دے لیا ہے..... آدھا کپ چائے کی خیرہے..... کسی کی یاد کا ایسا لمحہ ہوگا جس نے اُسے جینے کا انداز سُجھا دیا۔ بہت مہینے گزرگئے..... مجھے یاد رہا نہ اس نے SMSکیا.....
ایک سرد صبح میں نماز کے لیے جاگا تواس کا SMSبے چین کرگیا۔
’’سر!..... آج کسی بھی وقت میں آپ کو کال کروں گی۔‘‘
دوپہر میں اس کا فون آیا۔
’’سر!..... آپ کیسے ہیں؟‘‘
’’تم کہو.....‘‘
’’سر..... آپ کی تخلیق ’’میّا‘‘ اور ’’برائے فروخت‘‘ سامنے میز پر رکھی ہیں ساتھ میں اشفاق احمد کی ’’زاویہ‘‘ جمیلہ ہاشمی کا ’’دشتِ سُوس‘‘ اور عبداللہ حسین کا ناول ’’باگھ‘‘ رکھا ہے..... سر..... آپ نے ’’ماں‘‘ کا کینسر جھیلا ہے اور ’’برائے فروخت‘‘ میں ایک افسانہ ہے ’’جھونکا ہوا کا‘‘ اس میں بھی موت کی Depthہے..... سر..... آپ بڑی ہمت والے ہیں کیسے کیسے درد جھیل جاتے ہیں..... سر..... اِن دنوں میں بیمارہوں۔ دُعاکیجیے گا..... شام میں فون کروں گی اللہ حافظ اپنا خیال رکھیے گا!‘‘
اس کی گفتگو معنی خیز تھی۔ دوپہر اور شام کے درمیان صدیاں بچھ گئیں..... شام میں اُس کا فون آیا.....
’’سر..... آپ کو یاد ہے نا آپ کے موبائل نیٹ ورک کی Simمیں نے صرف آپ کے لیے لی تھی.....‘‘
’’یاد ہے.....!‘‘
’’بس..... سر..... Simچند دِن کی مہمان ہے۔‘‘
’’کیوں.....؟‘‘
’’سر..... آپ ہمت والے ہیں، آپ سمجھ تو گئے ہوں گے.....‘‘
’’تم جھوٹ بول رہی ہو.....‘‘
’’سر..... جھوٹ اور وہ بھی آپ سے؟‘‘ سر..... یہ تو ممکن نہیں ہے نا..... بس ہوگیا..... کینسر..... بلڈکینسر۔‘‘
کیوں، کیسے..... کب.....؟ سر..... ان سوالوں کے جواب تو نہیں ہوتے نا..... سر..... آپ ایک افسانہ اور لکھ ڈالیے میں کسی کے دِل میں نہ سہی آپ کے افسانے میں تو زندہ رہوں گی نا..... محبت نہ سہی..... آپ کے اور میرے درمیان ایک رشتہ تو تھا.....
میری قوتِ گویائی جاتی رہی.....
دوسرے روز سارا دِن موبائل پر سنّاٹا چھایا رہا.....
سہ پہر میں SMSکی مخصوص آواز سماعت سے ٹکرائی، خوف، اُمید، اندیشے، پسینے میں تربتر میں نے کرسی کی پُشت پر سرڈال دیا۔
SMSکھولنے کی ہمت نہیں ہوپارہی تھی۔
کہیں دور سے آواز آئی۔
مرمریں اُنگلیوں نے ماتھے تک سفر طے کرکے سلام مکمل کیا۔
’’سر..... آخری SMSہے..... ہمت کیجیے پڑھ لیجیے.....!‘‘
ایک لمحے کو آس کی ڈوری کا سرا میں نے تھاما..... شاید اُسے کینسر نہ ہو، اس SMS میں اُمید کی قندیل ٹمٹما رہی ہو۔ میں نے لرزتے ہاتھوں سے SMSکھولا..... اور دھرتی کے سارے نیٹ ورک جام ہوگئے۔
’’سر..... آپ نے ایک بارڈرائنگ روم کا پوچھا تھا، ڈرائنگ روم تو اک گزرگاہ ہے یہاں تو روز بہت سے لوگ آتے ہیں لیکن یاد رکھیے گا کہ میں صرف ایک ہی شخص سے ملی تھی اور مجھ سے بھی بس ایک ہی شخص ملا تھا جو آدھا کپ چائے چھوڑ گیا ورنہ لوگ تو بہت آتے ہیں.....‘‘