دونوں عالم سے عیاں تھا مجھے معلوم نہ تھا

دونوں عالم سے عیاں تھا مجھے معلوم نہ تھا
تو ہی تو جلوہ کناں تھا مجھے معلوم نہ تھا


قلب مضطر میں مرے مہر و وفا کی صورت
نور کا ایک جہاں تھا مجھے معلوم نہ تھا


درد‌ کونین اٹھا رکھا تھا اللہ اللہ
دل مرا کتنا جواں تھا مجھے معلوم نہ تھا


تو مری محفل افکار سجانے کے لیے
روح میں نور فشاں تھا مجھے معلوم نہ تھا


زینت فرش رہا یا سر قوسین رہا
تیرا محبوب کہاں تھا مجھے معلوم نہ تھا


جو بہا فرط ندامت سے حضوری میں تری
کتنا وہ اشک گراں تھا مجھے معلوم نہ تھا


لالہ و گل میں فضاؤں میں مہ و انجم میں
تیرا ہی نور نہاں تھا مجھے معلوم نہ تھا


باغ ہستی میں جلا میرا وجود ہستی
صورت فصل خزاں تھا مجھے معلوم نہ تھا