دو ہزار اکیس اور سیاسی رہنمائی

2021 کا سال دنیا بھر کی سیاسی قیادت    کی آزمائش کا سال تھا ، جس نے ہمیں مایوس کیا۔ یہ بات ہمیں اس  چیز کی دعوت دیتی ہے کہ ہم غور کریں کہ اس ناکامی کے سماجی نتائج کیا ہوں گے۔  میرا خیال ہے کہ  ہم میں سے بہت سوں کے لیے یہ  سال ایک حادثے کے مشاہدے کی طرح تھا، جس  میں دو سیکنڈ ، دو منٹ جتنے لمبے لگنے لگتے ہیں۔ یا  اگر ہم اس سال کے زاویے سے یہ بات کریں تو 12 ماہ   پوری دہائی کے برابر تھے جس میں  کبھی بندشیں تھیں   اور کبھی چیزیں کھل جاتی تھیں۔ اس میں لاک ڈاؤن تھے، مینڈیٹ تھے، کرفیو تھے، ذخیرہ اندوزی تھی اور تباہی تھی۔

دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد سے، سیاسیات میں غالب سوچ یہ تھی کہ ہم سب نظریات کی جنگ میں  پھنسے ہوئے لوگ ہیں۔ نظریات پر ہی ہمیں مباحث کرنے چاہئیں۔ کیوں کہ ہر چیز ان ہی سے ابھرتی ہے۔ 

اسی دور میں سیاسی افق پر دو نظریات، یعنی سرمایہ داری   اور کیمونیزم  ٹکرائے اور نظریات کے نام پر دنیا بھر میں ستم کی خوب داستانیں رقم کیں۔  سرمایہ دار طاقتوں نے غریب ممالک میں کیمونسٹ رہنماؤں کو  قتل کروایا اور خفیہ طور پر جنگوں کی پشت پناہی کی۔ اپنے اس اقدام میں  انہوں نے اس بات کو بالکل نظر انداز کر دیا کہ  اس سے ان ممالک میں کیسا رہنمائی کا خلا پیدا ہوگا۔ اسی  طرح کیمونسٹ حکومتوں نے بھی نہ ختم ہونے والے تنازعات کی پشت پناہی کی، یا معاملہ  مکمل بالائے طاق رکھتے ہوئے کہ اس  کی انسانی قیمت کیا ہوگی۔  اس کا نتیجہ ہم نے دیکھا کہ ہماری   نام نہاد تیسری دنیا کے ممالک میں دونوں اطراف  کے نظریات کی  قوتیں مکمل انتہاؤں پر پہنچیں۔  جب ایک قوت ہم پر ظلم ڈھا رہی ہوتی تو وہ یقین دلاتی کہ وہ یہ ہمارے بھلے کے لیے کر رہی ہے، جب کہ  اسی ظلم  کا باعث دوسری قوت   کی لالچ  اور نفرت  ہے۔   اس دوران مختلف رہنماؤں کے  دعووں  کا بہت ہی کم تعلق اخلاقیات سے تھا۔ جو کچھ وہ کہتے تھے، اس میں ان کا دعویٰ صرف یہ ہوتا تھا کہ جو گیت وہ گا رہے ہیں وہ نظریات کی    صحیح کتاب سے ہے۔ 

دو ہزار اکیس  نے ہمیں   ( اس سرد جنگ کے دور کی) یاد دہانی  کرواتے  ہوئے  بتایا ہے کہ اخلاقی نتائج کو نظر انداز کرتے ہوئے، صرف نظریات کے بل بوتے پر حکمرانی ایک مہلک اور خطرناک جال ہے۔

2021 میں بنیادی چیلنج یقیناً COVID-19 وبائی مرض رہا، جو  اب اپنے تیسرے سال میں  داخل ہو رہا ہے اور  بہت سی ہلچل اور تباہی کا باعث  بن چکا ہے۔  جب یہ مضمون لکھا جا رہا ہے، اس وقت دنیا بھر میں 280 ملین کیسز رپورٹ  ہو چکے ہیں اور 5.4 ملین تک اموات  ہو چکی ہیں۔  اس کا مطلب یہ ہے کہ سلوواکیہ کے سائز  کی آبادی مٹ چکی ہے۔

وبا کے آغاز سے لے کر کرونا وائرس کی متغیر شکل اومیکرون  کی آمد تک، امریکہ اور فرانس جیسے ممالک سب سے زیادہ اپنے ہاں کیسز رپورٹ کر رہے ہیں۔ یہ بات اس کے باوجود ہے کہ ان کے پاس ویکسینز کی ایک بھاری مقدار موجود ہے۔ دوسری طرف  وہ ممالک ہیں  جن کے ہاں ویکسینز نہیں پہنچ پا رہیں۔ اس میں دنیا   کے امیر ممالک  کا ہاتھ ہے۔ کیوں کہ  وبا کی موجودہ لہر نے ان کے کمزور سے  دفاعی نظام کو توڑ کر رکھ دیا ہے جو انہوں نے لاک ڈاؤن اور سفری پابندیوں کے ذریعے    قائم کیا تھا۔  انہیں ڈر ہے کہ اگر ویکسینز ان کے ہاں کم  ہو گئیں تو ان کا صحت کا نظام  مریضوں کی کثیر تعداد کی وجہ سے مفلوج ہو جائے گا۔ اس لیے وہ ویکسینز کو زیادہ سے زیادہ اپنے ہاں محفوظ کرنے پر لگے ہیں۔ جس کی وجہ سے ویکسینز غریب ممالک کو نہیں پہنچ پا رہیں۔  حالانکہ یہاں سیاسی رہنماؤں کی اخلاقی ذمہ داری کی ضرورت تھی۔ 

لیکن یہ صرف COVID-19 ہی نہیں ہے جس نے  دنیا بھر میں اخلاقی قیادت کی ضرورت کو عیاں کیا ہے۔ عالمی پناہ گزینوں اور تارکین وطن کا بحران جاری ہے، تنازعات، اقتصادی تباہی اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے دنیا بھر میں لوگوں کی بڑھتی  ہوئی مشکلات ہیں۔  لیکن ہر طرف سیاسی قیادت  کی اخلاقی ذمہ داریوں کا فقدان ہی نظر آتا ہے۔ سب نفسا نفسی کے عالم میں اپنے مفادات کے تحفظ میں  لگے ہیں۔  اور ایک دوسرے کو اخلاقی درس دیتے ہیں۔   سب طرف ہم بمقابلہ دوسرے کا بیانیہ ہے۔

2021 نے ہمیں یاد دلایا ہے کہ "ہم-بمقابلہ- دوسرے" کے بیانیے کے پیچھے ایک خالی پن ہے جو اس وقت سیاسی سوچ اور عمل پر حاوی ہے۔ یہ  سیاست  میں وہ نقطہ نظر  ہے  جو تعاون کے بجائے مسابقت پر    یقین رکھتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ انتہا پر  پہنچی اس قوم پرستی کو ہوا  دیتا ہے جو  اکثریت کی فلاح و بہبود پر کچھ کی سیاسی بقا کو فوقیت دیتا ہے۔

    2022 کو اگر ہم بہتر دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں بیل ہکس Bell Hooks جیسے سیاسی مفکرین  کے جذبے کو اپنے اندر زندہ کرنا ہوگا۔  bell hooks ایک ایسے مفکر تھے جنہوں نے سیاست اور معاشرے کو ایسے استوار کرنے کا فریم ورک دیا   جہاں محبت جیسی اقدار پروان چڑھ سکیں۔

 

مترجم: فرقان احمد