عبدالملک بن مروان اور امام زہری کے درمیان ہونے والا دلچسپ تاریخی مکالمہ

علامہ ابن الصلاح محدث نے، جن کی مشہور کتاب ’’مقدمہ ابن صلاح‘‘ اصول حدیث میں بڑی معتبر مانی جاتی ہے۔امام زہری اور بادشاہ وقت عبدالملک کا ایک مکالمہ با سند نقل کیا ہے جس کو ہم یہاں ناظرین کی دل چسپی کے لیے درج ذیل کرتے ہیں:

امام زہری کہتے ہیں کہ میں عبدالملک بن مروان کے پاس پہونچا تو اس نے مجھ سے پوچھا ’’زہری تم کہاں سے آئے ہو؟‘‘

زہری: مکہ سے

عبدالملک:تم نے وہاں کس کو سردار و پیشوا چھوڑا؟

زہری: عطا بن رباح کو

عبدالملک: عطا بن رباح عرب ہے یا غلام(عجمی)؟

زہری: عطا غلاموں سے ہے

عبدالملک: عطا غلام ہوکر سردار و پیشوا کیونکر ہوگیا؟

زہری: ’بالدیانۃ والروایۃ‘دینداری اور حدیثوں کی روایت کی وجہ سے

عبدالملک: بلاشبہ اہل دین و اہل روایت ضرور سرداری کے لائق ہیں۔

عبدالملک: یمن کا سردار کون ہے؟

زہری: طاؤس بن کیسان ہیں

عبدالملک: عرب ہیں یا غلام(عجمی)؟

زہری: عجمی غلام

عبدالملک: پھر غلام سردار و پیشوا مسلمانوں کا کیونکر ہوگیا؟

زہری: جس وجہ سے عطا بن ابی رباح سردار و پیشوا ہوئے

عبدالملک: ضرور ایسا ہی مناسب ہے

عبدالملک: زہری! مصر والوں کا سردار و پیشوا کون ہے؟

زہری: یزید بن حبیب

عبدالملک: یزید بن حبیب عرب ہے یا غلام عجمی؟

زہری: غلام ہیں

عبدالملک: اور شام والوں کا سردار و پیشوا کون ہے؟

زہری: مکحول ہیں

عبدالملک: غلام ہیں یا عرب؟

زہری: غلام ہیں۔ نوبی قوم سے قبیلہ ہزیل کی ایک عورت نے انھیں آزاد کیا تھا۔

عبدالملک: اہل جزیرہ کی سرداری کس کے سر ہے؟

زہری: میمون بن مہران کے۔

عبدالملک: میمون غلام ہے یا عرب؟

زہری: غلام ہیں

عبدالملک: خراسان والوں کا سردار کون ہے؟

زہری: ضحاک

عبدالملک: ضحاک عرب ہیں یا غلام؟

زہری: غلام ہیں

عبدالملک: اہل بصرہ کا سردار و پیشوا کون ہے؟

زہری: حسن بن ابی الحسن ہیں

عبدالملک: غلام ہیں یا عرب؟

زہری: غلام ہیں

عبدالملک: کوفہ کی سرداری کس کے سر ہے؟

زہری: ابراہیم نخعی کے

عبدالملک: عرب ہیں یا غلام؟

زہری: عرب ہیں

عبدالملک: بھلا ہو تمھارا اے زہری تم نے میرے دل سے بوجھ دور کردیا، خدا کی قسم عرب کی سرداری کا سہرا غلاموں کے سر ررہے گا اور غلام لوگ عرب کے پیشوا اور سردار بن جائیں گے۔ یہاں تک کہ انھی کے خطبے منبروں پر پڑھے جائیں گے اور عرب اس کے نیچے ہوں گے۔

زہری: ہاں اے امیر المومنین یہ تو اللہ کا امر اور اس کا دین ہے جو اس کی حفاظت کرے گا سردار و پیشوا ہوگا اور جو اسے ضائع کرے گا گر جائے گا۔

اس دل چسپ مکالمے سے موٹی عقل والا آدمی بھی اندازہ کرسکتا ہے کہ تاریخ کے بہترین دور میں مسلمانوں نے اس قانون مساوات و قانونی فضیلت کو کس کس طرح برت کر دکھایا اور اس کی بدولت مسلمانوں نے کیسی ترقی کی۔ اس کے بدولت جوق کے جوق لوگ اسلام میں داخل ہوتے تھے۔ اس زمانہ کی طرح یہ عذر نہ تھا کہ صاحب ہم لڑکے لڑکیوں کو کس طرح بیاہیں گے۔ مسلمان ہمارے بچوں کو نیچی نگاہ سے دیکھیں گے۔