دل میں خیال عشق تھا مہمان کی طرح

دل میں خیال عشق تھا مہمان کی طرح
ارماں سجا تھا میرؔ کے دیوان کی طرح


وسعت زمیں کی کھو گئی بستی کی بھیڑ میں
گلیوں میں شور بس گیا میدان کی طرح


سر پر فلک کو اوڑھے بچھائے زمین وہ
بیٹھا ہے شان سے کسی سلطان کی طرح


غافل مرے وجود سے سایہ مرا رہا
تھا ہم سفر وہ شہر میں انجان کی طرح


رکھتا ہوں میں عزیز روایت کا سلسلہ
گرتے مرے مکان کے دالان کی طرح


یہ منفعل سی زندگی مجھ کو نہیں قبول
عہد جنوں کے چاک گریبان کی طرح


تیور سے اس کے آگ تمنا میں لگ گئی
جلنے لگا ہے دل مرا شمشان کی طرح


تیرے بغیر ساہنیؔ تاروں کے درمیاں
محفل اداس تھی رہ ویران کی طرح