دل میں غم کی کنی نہیں ہوتی

دل میں غم کی کنی نہیں ہوتی
زندگی زندگی نہیں ہوتی


صرف ہونٹوں پہ جو بکھر جائے
وہ ہنسی تو ہنسی نہیں ہوتی


دل تو روتا ہے خون کے آنسو
آنکھ میں گو نمی نہیں ہوتی


گرچہ ہر دم وہ پاس رہتے ہیں
حسرتوں میں کمی نہیں ہوتی


تیرے قدموں پہ جس کا دم نکلے
اس سے بڑھ کر خوشی نہیں ہوتی


تیرے اٹھتے ہی بزم رنداں سے
دور تک روشنی نہیں ہوتی


اک تہی جام اور اک سرشار
یوں تو ساقی گری نہیں ہوتی


دل عاشق ہے پر بہار حبیبؔ
یاں خزاں ہی کبھی نہیں ہوتی