دل ہو آوارہ مگر عقل ٹھکانے سے رہے

دل ہو آوارہ مگر عقل ٹھکانے سے رہے
ہم یہ آداب محبت کے نبھانے سے رہے


ان دنوں ناز اٹھانے کا نہیں ہے یارا
ہم تو خود سے ہیں خفا ان کو منانے سے رہے


ہجر کی دھوپ نے آنکھوں میں نمی تک نہ رکھی
اب تری یاد میں ہم اشک بہانے سے رہے


ہے زمانہ کو محبت کا تقاضا ہم سے
ہم جو محروم محبت ہی زمانہ سے رہے


دل ہے واثقؔ ترا پاگل اسے سمجھا لینا
خیریت چاہے جو اپنی تو ٹھکانے سے رہے