دل بنا ہے ہدف تیر نظر آپ ہی آپ

دل بنا ہے ہدف تیر نظر آپ ہی آپ
زخم کھائے ہیں شب و روز مگر آپ ہی آپ


خوف رہزن بھی نہیں حاجت رہبر بھی نہیں
رہ گزر ہے خضر راہ گزر آپ ہی آپ


کچھ ادھر سے بھی تقاضائے وفا ہونے دے
دل ناداں تو ہی آغاز نہ کر آپ ہی آپ


ہم نے مانا کہ نظر ہم نہ کریں گے ہرگز
اور کھینچے کوئی دامن کو اگر آپ ہی آپ


لاکھ پردوں میں کوئی خود کو چھپائے بھی تو کیا
جذب کر لے گی نظاروں کو نظر آپ ہی آپ


فکر سامان تکلف ہو عصرؔ کیوں بے کار
زیست ہو جائے گی ایسے ہی بسر آپ ہی آپ