دیوالی کی شام

چھپ گیا خورشید تاباں آئی دیوالی کی شام
ہر طرف جشن چراغاں کا ہے کیسا اہتمام
ڈیوڑھیوں پر شادیانے عیش کے بجنے لگے
اور رنگیں قمقموں سے بام و در سجنے لگے
عطر و عنبر سے ہوا ہے کس قدر مہکی ہوئی
خوش نما مہتابیوں سے ہے فضا دہکی ہوئی
پھلجھڑی سے پھول یوں جھڑتے ہیں جیسے کہکشاں
ہر طرف پھیلا فضا میں ہے پٹاخوں کا دھواں
کیا مزے کی آتش افشانی ہے اگنی بان کی
دیکھ کر عش عش کرے جس کو نظر انسان کی
ہیں ستاروں کی یہ لڑیاں یا چراغوں کی قطار
کوچہ و بازار کے دیوار و در ہیں نور بار
بڑھ رہا ہے صورت سیلاب لوگوں کا ہجوم
ہر دکاں پر گاہکوں کا شور و غل ہے بالعموم
روشنی بن کر خوشی ہر سمت ہے چھائی ہوئی
ایک خلقت جس کے جلووں کی تماشائی ہوئی