ڈھونڈا تیری زلف کا سایا بھول ہوئی شرمندہ ہوں
ڈھونڈا تیری زلف کا سایا بھول ہوئی شرمندہ ہوں
پیاسا من تھا دھوکا کھایا بھول ہوئی شرمندہ ہوں
شہر کی روشن راہوں میں بھی تیری بانہیں یاد آئیں
خود کو تنہا تنہا پایا بھول ہوئی شرمندہ ہوں
شہر وفا کے سارے رستے تیری جانب ہی نکلے
یا پھر میں نے ہوش گنوایا بھول ہوئی شرمندہ ہوں
کیسے کیسے مقناطیسی روپ سجے تھے رستے میں
لوٹ کے تیرے پاس ہی آیا بھول ہوئی شرمندہ ہوں
جیسے کوئی ضدی بچہ روکا جائے مگر نہ آئے
تیرے در کو دیس بنایا بھول ہوئی شرمندہ ہوں
اس دنیا میں اور بھی غم تھے میٹھے میٹھے درد بھرے
غم تیرا ہی چاہا پایا بھول ہوئی شرمندہ ہوں
بیگانوں نے پیار دیا تو ہم نے دامن کھینچ لیا
اپنوں سے ہی ربط بڑھایا بھول ہوئی شرمندہ ہوں
جس ماحول کے تپتے موسم دکھ ہی دیتے تھے انعامؔ
اس پر بھی ساون برسایا بھول ہوئی شرمندہ ہوں