دیکھا ہے جس نے یار کے رخسار کی طرف
دیکھا ہے جس نے یار کے رخسار کی طرف
ہرگز نہ جاوے سیر کوں گل زار کی طرف
آئینہ دل کی چشم میں نور جمال دوست
روشن ہوا ہے ہر در و دیوار کی طرف
منظور ہے سلامتیٔ خوں اگر تجھے
مت دیکھ اس کی نرگس بیمار کی طرف
وہاں نہیں بغیر جوہر شمشیر خوں بہا
زاہد نہ جا وو ظالم خونخوار کی طرف
ہے دل کوں عزم چوک امید وصال پر
دیوانہ کا خیال ہے بازار کی طرف
کیا پوچھتے ہو تم کہ ترا دل کدھر گیا
دل کا مکاں کہاں؟ یہی دل دار کی طرف
پروانہ کوں نہیں ہے مگر خوف جاں سراجؔ
ناحق چلا ہے شعلۂ دیدار کی طرف