دیوار گریہ کا آخری باب

دیکھ بیت المقدس کی پرچھائیاں

اجنبی ہو گئیں جس کی پہنائیاں

ہر طرف پرچمِ نجمِ داؤد ہے

راہ صخرا کے گنبد کی مسدود ہے

رفعتِ آخریں عالمِ پست کی

منزلِ اوّلیں تا سما جست کی

سجدہ گاہِ عمرؓ، مسجدِ پاک میں

آج خالی مصلے، اٹے خاک میں

ہر طرف فوجِ دجالِ ملعون ہے

منزل و سوق و بازار میں خون ہے

 

میں نہ لوٹوں گا، مجھ کو نہ آواز دو

جب تلک ملک میرا نہ آزاد ہو

قول ہارا تھا جس مردِ بےباک نے

ہاں اسے بھی پناہ دی تری خاک نے

وہ کہ جوہرؔ تھا شمشیرِ اسلام کا

ایک ہندی محمد علی نام کا

آج یوروشلم تو جو پامال ہے

روحِ آزاد کا اس کی کیا حال ہے؟

 

یا اخی! یا اخی!

رو چکا، اور کاہے کو روتا ہے تو

تیرے رب کا تو فرمان لا تقنطوا!

کس کی تاریخ ہے بے غم و ابتلا

کربلا بھی ترے دین کا مرحلہ

جس جگہ دھوپ ہے، اس جگہ چھاؤں ہے

آ دکھائیں تجھے، تیری دلجوئی کو

دُور مشرق میں احرارِ ہنوئی کو

ان کا دشمن شکستوں سے بے حال ہے

ان کو لڑتے ہوئے بیسواں سال ہے

یہ بھی ملحوظ رکھ، تو جو دل تنگ ہے

یہ بھی ان کی ہے، وہ بھی تری جنگ ہے

 

آج دشمن کو گر کامراں جانیے

اس کو اک عارضی امتحاں جانیے

جنگ میں گام دوگام ہٹتے بھی ہیں

آگے بڑھنے کو پیچھے پلٹتے بھی ہیں

 

آ کہ ان قاتلوں، وحشیوں مجرموں

غاصبوں، اور ان سب کے آقاؤں کو

وہ جو سونے کے بچھڑوں کی پوجا کریں

سات ساگر کے اس پار سے جو سدا

تار سازش کے بیٹھے ملایا کریں

ساری دنیا میں آشوب لایا کریں

ان کے اپنے گناہوں کے سنگِ گراں

کر کے زیبِ گلو

آج عقبہ کی کھاڑی میں غرقاب کر دیں

 

تاکہ عمان و مکہ بھی محفوظ ہوں

تاکہ لاہور و ڈھاکہ بھی محفوظ ہوں

تاکہ اور اہلِ دنیا بھی محفوظ ہوں

 

اور پھر ان کے پسماندگاں کے لیے

ایک دیوارِ گریہ بنائیں کہیں

جس پہ مل کے یہ آنسو بہائیں کہیں

متعلقہ عنوانات