داعش کی حقیقت

عراق پر 2003 کے امریکی قبضے کے بعد سے  مشرق وسطیٰ تنازعات ، بڑھتی ہوئی فرقہ واریت اور افراتفری سے گزر رہا ہے۔  یہ وہ ساز گار ماحول ہے جس نے داعش جیسی دہشت گرد تنظیم کو پنپنے، مضبوط ہونے  حتیٰ کہ اپنی حکومت کے قیام کا پورا پورا موقع فراہم کیا۔

مصنفین ، جے ایم برجر اور جیسکا سٹرن نے اپنی تحقیقی کتاب:  آئی ایس آئی ایس: دی اسٹیٹ آف ٹیرر ، اور فواز اے جیرجس نے  

ISIS: A History

میں ، اس گروپ کی ابتدا کے نشانات 1990 کی  دہائی تک بتائے ہیں، جب ایک اردنی شخص ابو مصعب الزرقاوی ، جو کہ ایک گلی کا ٹھگ تھا اور اردن میں  قیدی رہا تھا، نے افغانستان میں سوویت یونین کے قبضے کے خلاف مجاہد کی حیثیت  سے لڑنے کے لیے قصد کیا۔

وہ بہت دیر سے  افغانستان پہنچا۔  سوویت یونین شکست کھا چکا تھا اور اس کے خلاف جہاد ختم ہو گیا تھا ،  وہ افغانستان میں کچھ دیر رکا اور پھر اردن لوٹ گیا۔ لیکن بعد میں وہ 2000 میں اردن سے افغانستان واپس آیا تاکہ القاعدہ کی مالی مدد سے جنگجوؤں کے لیے تربیتی کیمپ قائم کرے۔ وہاں ، اس نے جنگجوؤں کا ایک  وسیع نیٹ ورک تیار کیا۔ ایسے جنگجو،   جن کے پس منظر  ان کی  غربت کا پتہ دیتے تھے۔ وہ اکثر جیل میں رہے تھے۔ وہ تعلیم کے کم درجے اور قرآن کے  سطحی مذہبی علم کے ساتھ، جنت کے حصول کے لیے جہاد کرنا چاہتے تھے۔

2003 میں زرقاوی کے وسائل اس وقت کم تھے جب وہ امریکہ کے زیر قبضہ عراق میں القاعدہ کی شاخ بنانے کے لیے پہنچا تھا۔ پھر بھی بڑھتی ہوئی فرقہ وارانہ کشیدگی نے زرقاوی کو اپنی جنونی تنظیم کے پیروکار اور وسائل حاصل کرنے  کا موقع دیا۔

عراق اس کی پہلی مثال ہے کہ کس طرح مغربی مداخلت اور ناکام ریاستی خدمات نے  نفرت ، عدم اعتماد اور افرا تفری کی فضا پیدا کی، جس سے زرقاوی جیسے نظریات رکھنے والی تنظیم کو فائدہ پہنچا۔

صدام حسین کو اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد ، امریکہ  نواز عبوری اتحاد نے قومی حکومت کی وسیع پیمانے پر تبدیلی شروع کی ، جس نے  صدام کی بعث پارٹی کے ممبروں کی صفوں کو قومی دھارے سے کاٹ دیا۔ عراقی فوج کو بھی منتشر کر دیا گیا ، جس سے آبادی میں ناراض ، حق سے محروم سنی ٹیکنوکریٹس پیدا ہو گئے۔  اپنی کتاب میں ، سٹرن اور برجر نے اندازہ لگایا ہے کہ ایک لاکھ سے زیادہ بعثیوں کو ان کے عہدوں سے ہٹا دیا گیا۔ اب ان میں سے  کچھ کو زرقاوی  کی  جماعت نے متاثر کیا  جو بعد میں داعش کے اعلیٰ عہدوں پر  فائز ہوئے۔ اس طرح سے عسکری علم کی دولت خوب داعش کو حاصل ہوئی۔ آئی ایس آئی ایس کے پاس وہ عسکری تربیت یافتہ لیڈر شپ آئی  جو آٹھ سالہ ایران عراق جنگ سے جنگی حالات کا تجربہ رکھتی تھی۔  2004 میں القاعدہ کے عراق میں قیام کے بعد زرقاوی شیعہ مسلمانوں کے خلاف مکمل جنگ کی طرف بڑھے۔

بین الاقوامی کرائسس گروپ کے ڈائریکٹر رچرڈ ایٹ ووڈ نے کہا کہ زرقاوی خود فرقہ  ورانہ نظریات کے حامی تو تھےہی، ، لیکن انہوں نے  یہ انداذہ خوب لگایا کہ سنی شیعہ تصادم کو بھڑکانا ان کے حق میں کیسے کام کرے گا۔  زرقاوی نے شیعہ مذہبی  علامات پر   حملوں کا آغاز کیا اور فرقہ وارانہ خانہ جنگی کو ہوا دی۔ عراق میں زرقاوی کی القاعدہ 2006 میں دوسرے گروہوں کے ساتھ مل گئی ۔  اب اس کے اسامہ بن لادن کی القاعدہ سے تعلقات کافی کمزور ہو چکے تھے۔ لیکن القاعدہ کی قیادت سے کمزور تعلقات برقرار رکھتے ہوئے  زرقاوی  کی القاعدہ نے عراق میں اسلامک اسٹیٹ کا نام اختیار کیا۔ لیکن اب تک زرقاوی امریکی حملے میں مارا جا چکا تھا۔ ولسن سنٹر کے مطابق ، 15 اکتوبر 2006 کو ، ابو ایوب المصری ، جس نے زرقاوی کی موت کے بعد اس گروپ کو سنبھالا ، نے عراق میں اسلامک اسٹیٹ آف عراق اینڈ شام  (آئی ایس آئی ایس) کے قیام کا اعلان کیا۔ ابو عمر البغدادی کو اس کا لیڈر بنایا۔

2010 تک ، سنی اور شیعہ مسلمانوں کے درمیان تقسیم بہت وسیع ہو چکی تھی ، لیکن مالکی نے اس کا کوئی  تدارک  نہ کیا۔ مالکی دن بدن زیادہ آمرانہ پالیسیز اپنا رہے تھے اور اب تک عراق کے وزیر داخلہ اور وزیر دفاع بھی خود ہی بن چکے تھے۔ دوسری طرف ریاست اب بجلی جیسی بنیادی صہولیات فراہم نہیں کر  پا رہی تھی۔ طاقتور سنی قبائل ، جو کبھی امریکی قابض افواج کے ساتھ تعاون کے بدلے حکومت میں  عہدے رکھا کرتے تھے، پوری طرح حکومت سے الگ کر دیے  گئےتھے۔ 2011 میں ملک بھر میں حکومت مخالف مظاہرے پھوٹ پڑے۔ سیکورٹی فورسز نے کریک ڈاؤن کیا ، اور ریاست کے پرتشدد ردعمل نے ابھرتے ہوئے اپوزیشن گروپوں کے  ایک وسیع  حصے کو مشتعل کردیا۔

چونکہ داعش نے خود کو سنی اور شیعہ مسلمانوں کے مابین  تصادم  پر مبنی بیانیے پر کھڑا کیا تھا، لہٰذا اس گروہ نے اپنی توانائیاں فرقوں میں اختلاف کو ہوا دینے پر مرکوز کر دیں۔ داعش بہت حد تک کشیدہ ہوتے سنی شیعہ تعلقات اور نوری المالکی کی حکومت کی وجہ سے  مضبوط ہوئی۔ داعش نے زیر زمین نیٹ ورکس اور سلیپر سیلز کو آہستہ آہستہ تعمیر کیا۔ اس   کی  قوت بشمول قیادت کی سطح  کو بھی جیل کے وقفوں سے تقویت ملی۔

 

شام میں جہاں تبدیلی کے پرامید حامیوں نے 2011 کے عرب انقلابات کے دوران تبدیلی کے امکانات دیکھے ، وہاں داعش نے پرتشدد انتشار کا ایک  موقع دیکھا جسے طاقت کے لیے استعمال کیا جا سکتا  تھا۔ 2011 کے آخر میں ، داعش نے ایک قابل اعتماد لیفٹیننٹ ابو محمد الجولانی کو شام میں ایک سیل قائم کرنے کے لیے بھیجا۔

اس نے جبہت النصرہ قائم کیا ، جو خانہ جنگی میں اپنی فوجی طاقت اور خودکش حملہ آوروں کے وسیع استعمال کی وجہ  سے مشہور ہوا۔  برسوں تک النصرہ نے داعش اور القاعدہ کے ساتھ اپنی وابستگی چھپائی۔ انہیں بغدادی کے ساتھ اس کے لاجسٹک اور مالی فوائد بانٹنے کے بدلے میں خفیہ سپورٹ ملی۔ بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے جبہت النصرہ پر کی گئی ایک تحقیق سے پتہ چلا کہ 2012 میں اس گروہ کو داعش کی جانب سے 50 فیصد فنڈنگ حاصل  ہوتی تھی۔

تاہم ، 2013 میں ، بغدادی نے جولانی سے مطالبہ کیا کہ وہ بن لادن کی القاعدہ چھوڑ کر اپنے گروپ سے الحاق کرے۔ جولانی نے انکار کر دیا ، ایک  خونی جنگ و جدل کا آغاز ہوا۔  اک دوجے کے ہزاروں جنگجوؤں کو ہلاک کیا  گیا۔ اس لڑائی میں داعش کی بے رحمی اس کی صفوں میں شامل لوگوں تک بھی پھیل گئی ۔ جلد ہی ، داعش نے شام میں اپنا آزاد سیل بنانا شروع کر دیا اور باغیوں کے زیر کنٹرول علاقوں میں  در آئی۔

القاعدہ سے الگ ہونے کے بعد ، داعش مشرق کی طرف زیادہ جارحانہ انداز میں منتقل ہوئی اور النصرہ کے بہت سے جنگجوؤں کو چھلنی کر دیا۔ یہ حکومت پر حملہ کرنے کے بجائے باغیوں کے خلاف جارحانہ انداز میں آگے  بڑھتی رہی۔   شام میں اسد حکومت کا ایران اور حزب اللہ دونوں سے تعاون حاصل کرنے کا انتخاب "شیعہ حکومت کے خلاف سنی مفادات کے دفاع" کے داعش کے بیانیے  کو بڑھانے میں کردار ادا  کرتا رہا

2014 تک ، داعش نے موصل کو شکست خوردہ عراقی فوج سے چھین لیا اور اس کے ساتھ ساتھ شام میں رقہ اور تیل سے مالا مال دیر الزور پر بھی قبضہ کر لیا۔

اس گروپ نے شام اور عراق کی سرحد کو منظم طریقے سے ختم کرنے کے لیے ٹولز اور بلڈوزر استعمال کیے اور حکومت کی خواہشات کو حقیقت میں بدل دیا۔ علاقائی فوائد کو مستحکم کرنے کے بعد ، داعش نے غیر ملکی ٹیکنوکریٹس کی مدد سے اپنا بیوروکریٹک  انفراسٹرکچر قائم کرنا شروع کیا۔  کارنیگی مڈل ایسٹ سنٹر  کی ایک تحقیق کے مطابق ، داعش نے غیر ملکی بھرتیوں کو اپنی طرف راغب کر کے  دو اہداف حاصل  کیے۔ ایک تو اس کی آبادی میں اضافہ ہوا اور دوسرا پائیدار  ریاست کے قیام کا اس کا مقصد پورا ہوا۔ یہ نئے آنے والے پڑھے لکھے، ہنر مند اور قابل افراد   ریاست کے شعبہ جات چلانے کے لیے بہت مفید ثابت  ہوئے۔ ان شعبہ جات میں تعلیم ، صحت اور کمیونٹی پولیسنگ شامل ہیں۔ ان کی شراکت نے داعش کے پروپیگنڈے کے  پیغام کو پھیلانے میں  بہت مدد کی۔ داعش نے نہ صرف سوشل میڈیا پر جنگجوؤں کو بلایا بلکہ ڈاکٹروں ، انجینئروں اور باقاعدہ شہریوں کو بھی بلایا جنہیں یقین کرنے پر مجبور  کیا گیا کہ ان کا خلافت کو مستحکم کرنے کے لیے اہم کردار درکار ہے۔

داعش نے اپنے زیر کنٹرول مقامی آبادیوں پر جو وحشیانہ تشدد کیا ،  اس کو اچھی طرح دستاویزی شکل دی گئی ہے ، کیونکہ اس گروپ نے اپنے "ولایت" ، یا صوبوں کے  وسائل سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے اس بات کی پروا نہ کی کہ اس کا ہر قدم ریکارڈ پر لایا جا رہا ہے۔ تحقیقات کے مطابق:  داعش کی آمدنی کی چھ بڑی اقسام  تھیں: ٹیکس اور فیس ، قدرتی وسائل ، اغوا ، نوادرات ، غیر ملکی عطیات ، لوٹ مار ، ضبطگی اور جرمانہ۔

            ان سب عوامل کی بنا پر دو ہزار چودہ تک داعش اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی اور اس کے اس وقت کے سربراہ ابو بکر البغدادی نے عراق اور شام میں اس کی خلافت کا اعلان بھی کر دیا تھا۔ لیکن پھر امریکہ کی امداد سے، ایران اور دیگر اسلامی ممالک کی حمایت سے اس پر کریک ڈاؤن شروع ہوا اور اسے عراق اور شام سے اکھاڑ دیا گیا۔  دو ہزار سترہ میں اس گروہ سے نجات کا اعلان کر دیا گیا تھا۔  لیکن عالمی منظر نامے پر نظر رکھنے والے ماہرین اس بات کا بار بار اظہار کرتے رہتے ہیں کہ داعش کا خاتمہ نہیں ہوا، بلکہ یہ اب چند علاقوں سے نکل کر دنیا بھر میں پھیل گئی ہے۔ ہمارے ہمسائے افغانستان میں حالیہ دنوں میں اس گروہ کی بہت بہیمانہ کاروائیاں سامنے آئیں ہیں۔ لیکن امریکہ، جو اس گروہ  کے خاتمے کے لیے فرنٹ لائن سٹیٹ بنا ہوا ہے، نے اس گروہ کے سربراہ کے دو ہزار انیس میں خاتمے کا اعلان کر دیا تھا۔   ہو سکتا ہے کہ ایسا ہو گیا ہو لیکن ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ کیسے عدم استحکام اور شہریوں کے درمیان عدم اعتماد کی فضا ایک انتہا پسند، موقع پرست تنظیم کو پنپنے کا ساز گار ماحول فراہم  کرتی ہے۔ کیسے عالمی طاقتوں کے مفادات بسے بسائے علاقوں کو اجاڑتے ہیں اور ہم ان سب سے کیسے بچ کر رہ سکتے ہیں۔  یہ بہت ضروری ہے۔ کیونکہ ہمارے درمیان ایسی فالٹ لائنز موجود ہیں جن کا فائدہ کوئی بھی انٹرنیشنل طاقت اپنے مفادات کے حصول کے لیے   استعمال کر سکتی ہے۔ ہمیں بہت محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔

(الجزیرہ ویب کے آرٹیکل کا اردو ترجمہ)