دشت زار غم میں آتش زیر پا ہم بھی رہے
دشت زار غم میں آتش زیر پا ہم بھی رہے
اک سلگتی تشنگی سے آشنا ہم بھی رہے
انتظار اپنے لیے تھا انتشار اپنے لیے
یاس کا صحرا سمندر آس کا ہم بھی رہے
تلخ ترش اور تیز مثل زہر دنیا ہی نہ تھی
گرد سرد اور تند مانند ہوا ہم بھی رہے
جم گئیں ہم پر بھی نظریں زہرہ و مریخ کی
وقت کے دل کے دھڑکنے کی صدا ہم بھی رہے
جسم کے ظلمت کدہ میں صورت قندیل ذات
سیکڑوں پردوں میں رہ کر برملا ہم بھی رہے
کیسی محرومی ہے اکبرؔ یہ کہ خود اپنے لیے
اپنے ہی سائے کی صورت نارسا ہم بھی رہے