ڈاروِن،بندر اور ارتقاء

شیخ جمن اپنے آراستہ و پیراستہ بیڈ روم کی کھڑکی سے نیچے سڑک پر لوگوں کی رینگتی ہوئی بھیڑ دیکھتے ہیں تو انہیں محسوس ہوتا ہے مانو وہ کسی پہاڑ کی چوٹی پر بیٹھے ہیں ۔ وہ سوچتے ہیں اپنا بیڈروم چوتھی منزل پر بنواکر انہوں نے اچھا ہی کیا ،اس سے ایک قسم کی بلندی کا احساس بنارہتا ہے ، اس کے علاوہ یہاں سکون ہے سڑک کا شور پریشان نہیں کرتا ۔جب کبھی وہ پریشانی محسوس کرتے ہیں تو سامنے دیوار پر نگاہیں جمادیتے ہیں جہاں عمر خیام کی رباعی پر مبنی ایک خوبصورت پینٹنگ آویزاں ہے ، ساقی ، صراحی اور جام !
شیخ جمن کو رینگتی ہوئی بھیڑ میں کبھی کبھی ننگ دھڑنگ آوارہ لونڈوں کی جماعت نظر آجاتی ہے۔ انہیں بے چینی سی ہونے لگتی ہے۔وہ خود کو کسی لامتناہی اندھے کنویں میں تیزی سے گرتا ہوا محسوس کرتے ہیں ۔یہ بلندی اور یہ پستی !یہ آوارہ لونڈے قریب ہی کی بستی آزاد نگر کے رہنے والے ہیں ۔ چناؤ ں کے دنوں میں انہیں ایسی بستیوں کا طوفانی دورہ کرنا پڑتا ہے ۔گندی نالیوں کو پھلانگتے ہوئے ، کیچڑ کادواور گُو مُوت بھرے راستوں پر سنبھل سنبھل کر چلتے ہوئے بھینسوں ،گایوں ، بکریوں اور مرغیوں سے بچتے بچاتے وہ اور ان کے ساتھی ہرایک جھونپڑی کے دروازے پر ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہوجاتے ہیں ۔بدحال عورتیں اپنے مرگھلے بچوں کو سوکھی چھاتیوں سے چپکائے جلدی جلدی اپنی دُکھ بھری داستان سنا کر ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتی ہیں ۔ شیخ جمن ہرایک کی بات بڑے صبر سے سنتے ہیں ۔ اُن کے درمیان ساڑیاں اور کمبل تقسیم کرتے ہیں ۔پیسوں کے ساتھ دلاسہ بھی دیتے ہیں ۔ان کی زندگی میں جنت کی بہاریں لانے کا عزم مصمم کرتے ہیں اور آخر میں ایک مسلم رہنما ہونے کے ناتے مذہبی جذبے کے نام پر ان سے بندر چھاپ پر مہر لگانے کی اپیل کرتے ہیں ۔ اس طرح شیخ جمن پچھلے بیس برسوں سے اس اقلیتی حلقے کی نمائندگی بحسن وخوبی کرتے آرہے ہیں ۔
ہم تھوڑا بھٹک گئے ۔ بات آوارہ لونڈوں کی ہورہی تھی جنہیں دیکھ کر شیخ جمن کو اکثر کسی لامتناہی اندھے کنویں میں گرنے کا احساس ہونے لگتا ہے۔ اس خوفناک اندھیرے میں جگنوکی طرح ایک چہرہ چمکتا ہے۔جُمنا! یہ جُمنا ان کے لیے ایک آسیب بن گیا ہے ۔وہ کتنی کوشش کرتے ہیں اس آسیب سے چھٹکارا پانے کی لیکن کبھی کامیاب نہیں ہوتے۔ وہ سوچتے ہیں یہ ناسُور شاید ان کی جان لے کر ہی دم لے گا۔یہ جان کسی بھی وقت جاسکتی ہے۔ ایک ہارٹ اٹیک اور بس!
فیملی ڈاکٹر سے وہ ہمیشہ بلڈ پریشر چیک کرواتے رہتے ہیں ۔
جب جُمنا انہیں یاد کی خوفناک کھائیوں میں دھکیل دیتا ہے اور جب وہ بھٹک کر باہر نکلتے ہیں تو ان کی سانسیں ناہموار ہوجاتی ہیں اور جسم پسینے سے شرابور ۔وہ فیملی ڈاکٹر کو طلب کرلیتے ہیں ۔
آخر یہ جُمنا ان کی زندگی میں زہر کیوں گھولتا جارہا ہے؟ ان کے لیے تو وہ کب کا مرچکا۔نہیں وہ مرا نہیں ،جمنا اب بھی زندہ ہے۔کیوں زندہ ہے؟وہ دکھی من سے سوچتے ہیں ۔لیکن جواب کے نام پر انہیں صرف سوگوار خاموشی کا خوفناک احساس ہوتا ہے۔دُور کہیں بین کی ماتمی آوازیں ہلکے سُروں میں ابھرنے لگتی ہیں ۔آنکھوں کے سامنے کچھ دھندلے نقوش واضح ہونے لگتے ہیں ۔وہ سر جھٹکتے ہیں ، نظریں پینٹنگ پر ٹکادیتے ہیں ۔لیکن ساقی، صراحی اور جام ایک ایک کرکے غائب ہوجاتے ہیں ، رہ جاتا ہے ایک سپاٹ اور سادہ اسکرین اور پھر جیسے ایک رنگین فلم ڈابلی ساؤنڈ کے ساتھ چل پڑتی ہے۔
ایک لڑکا ، دھول مٹی سے اٹا ہوا، پھٹا پائجامہ اور تین روپیہ گز کی ڈوری دار قمیض پہنے ہوئے، اتری بہار کے ایک گانو کی مرییا(جھونپڑی نما مٹی کا مکان)کے سامنے گانو کے دوسرے چھوکروں کے ساتھ دھینگا مشتی کررہا ہے ۔ مرئیاسے لڑکے کی ماں نکلتی ہے ، سرجھاڑ منہ پہاڑ ، میلی کچیلی ساڑی میں لپٹی ہوئی ۔
’’ارے جُمنا ، حرامی کہیں کا، رے چھورا ، مودرسے (مدرسے)نہ جائیبے؟‘‘وہ زور سے چلاتی ہے۔جُمنا دھیان نہیں دیتا۔
’’ٹھہور، ابھی تُورے باپ کو کہیؤہو۔‘‘ وہ اندر چلی جاتی ہے۔ دوسرے ہی پل اس کا باپ باہر آتا ہے ، ہانپتا، ہاتھ میں بانس کا سٹکا(پتلی اور لمبی چھڑی)لہراتا، جُمنا کے بال پکڑ کر تڑاتڑ دو سٹکا جماتا ہے۔’’چل ، جُو نہ تو مار مار کے ادھ مرواکردیبو۔، سمجھے نا۔‘‘ کہتے کہتے اس کا دم پھول جاتا ہے۔ کھانسنے لگتا ہے۔
کھانسی کا خوفناک دورہ ، بہت دیر تک لگاتار کھانستا رہتا ہے۔منہ سے کف نکلنے لگتا ہے، آنکھیں اُبل پڑتی ہیں۔
شیخ جمن کی آنکھیں اسکرین پر جمی رہتی ہیں ۔لڑکے کے جسم پر پڑنے والے سٹکے کی چوٹ کے احساس سے وہ ہولے سے کانپ اٹھتے ہیں ۔
منظر بدلتا ہے۔
جُمنا بغل میں کتاب دبائے، ہاتھ میں تختی لیے ، سرپر میلی ٹوپی ڈالے ، سسکتا ہوا ، ننگے پاؤں چلا جارہا ہے۔ پوکھر(تالاب) کے کنارے کنارے چلتا ہوا پھوس کی چھت والے مدرسے پہنچتا ہے۔ لڑکے بیٹھے جھوم رہے ہیں ......سین زبر سا......سین زیر سے.......سین پیش سو.......اور مولوی صاحب آنکھیں موندے ، ٹانگ پسارے سورہے ہیں اور ان کی مٹ میلی داڑھی کے گرد مکھیاں بھنک رہی ہیں ۔ جُمنا کی آہٹ پاکر وہ چونکتے ہیں ۔ سیدھے ہوجاتے ہیں ، پھر ایک سٹکا جما کر کہتے ہیں ۔’’روز دیر سے آوا ہے، چل جو سبق نکال کر یاد کر۔‘‘
اسکرین پر دوڑتے ہوئے منظر جب اس مقام پر پہنچتے ہیں تو شیخ جمن ایک گہرا سانس لے کر اپنی ڈائی زدہ چمچماتی سیاہ داڑھی کو سہلاتے ہوئے سوچتے ہیں کہ جُمنا اپنا سبق کبھی یاد نہ کرسکا۔
اچانک انہیں اپنے دل کی دھڑکن کا خیال آتا ہے۔تیزی کے ساتھ وہ فون کی طرف بڑھ جاتے ہیں اور فیملی ڈاکٹر کے نمبر ملانے لگتے ہیں ، اور اس طرح اسکرین پر دوڑتی ہوئی فلم کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے۔سچ پوچھئے تو شیخ جمن باربار ایک ہی فلم دیکھ دیکھ کر تنگ آچکے ہیں ۔وہ ہمیشہ ایسے کسی بھی واقعہ سے خود کو بچانا چاہتے ہیں جو ان کو اس فلم کی بدرنگ دنیا میں لے جانے کا سبب بن سکتا ہے۔
آج شیخ جمن سو کراٹھے تو انہیں تھوڑا بوجھل پن کا احساس ہوا۔ رات بھر جم کر بارش ہوئی تھی ۔کھڑکی کے باہر ہرایک منظر بھیگا بھیگا سا تھا۔ آج مکھیہ منتری جی کا گاندھی میدان میں بھاشن تھا۔بھاشن سے پہلے وہ غریب محلوں میں جاکر وہاں کی غریبی سے سوئم(خود)آوگت ہونا چاہتے تھے۔ اس مسلم اکثریت والے علاقے میں مکھیہ منتری جی کے ساتھ شیخ صاحب کی موجودگی انتہائی ضروری تھی۔اس سے لوگوں میں پارٹی اور مسلم رہنما شیخ جمن کی بہترین نمائندگی ہوگی۔
نو بجے تک سارے کاریہ کرتا(پارٹی ورکر)حاضر ہوگئے ۔ شیخ جمن اہم لوگوں کو اپنی ماروتی ون تھاؤزنڈ میں لے کر مکھیہ منتری جی کے سواگت(استقبال)کے لیے ائر پورٹ پہنچ گئے۔ مکھیہ منتری جی دوگھنٹہ لیٹ سے پہنچے تھے۔ بہت شاندار اور جاندار طریقے سے سواگت کیا گیا۔شیخ جمن کو گلے لگاکر ہنستے ہوئے بولے۔’’جُمن جی ، جب آپ اِی کرِکوا(کالا) چسما(چشمہ) پہین لیتے ہیں ناتا سچے کہتے ہیں آپ بالکل اپنے......ارے کانام ہے.......ہاں وہی اپنے وہی مولانا عبدل کلام کے سمان لگتے ہیں ۔‘‘
مکھیہ منتری کے کے سکریٹری نے جھک کر ان کے کان میں کہا۔’’سر، عبدل کلام نہیں ، ابوالکلام .......‘
’’ارے ایکے بات ہے پٹھا۔‘‘مکھیہ منتری اس کی بات کاٹ کر اسے ایک دھول جماتے ہوئے خوشدلی سے ہنس کر بولے اور شیخ جمن کے ساتھ آگے بڑھ گئے ، خود شیخ جمن عبدل کلام اور ابولکلام کی باریک تفریق نابلد تھے۔
مکھیہ منتری کے ساتھ شیخ جمن آزاد نگر پہنچے تو طے شدہ پروگرام کے مطابق سبھوں کا زوردار نعروں کے ساتھ استقبال کیا گیا۔مکھیہ منتری جی کے لیے شاندار اسٹیج بنایاگیا تھا۔اس وقت وہاں غلام فرید صابری قوال کی مقبول قوالی کا ٹیپ بج رہا تھا۔بھر دو جھولی مری یا محمد، لوٹ کر میں نہ جاؤں گا خالی ۔ایک کاریہ کرتا کے اشارے پر قوالی بند کردی گئی ۔اسٹیج کے چاروں طرف بے کار نوجوانوں ، کانپتے ہوئے بوڑھوں اور نچڑی ہوئی زندگی کی رمق سے خالی عورتوں کا مجمع لگاگیا۔مکھیہ منتری جی نے بہت پُرا ثر بھاشن دیا۔انہوں نے الپ سنکھیک سمودائے(اقلیتی فرقے)پر کئے جارہے لگاتار آتیہ چاروں کے خلاف بہت کچھ کہہ کر اپنے غم و غصے کا اظہار کیا۔ مسلمانوں کو وشواس دلایا کہ جب تک وہ مکھیہ منتری کی کرسی پر براجمان ہیں الپ سنکھیک سمودائے پر کسی بھی طرح کا ظلم نہیں ہونے دیں گے۔اگر کسی مائی کے لال نے ایسی ہمت کی تو اسے عبرت کی ایک مثال بنادیں گے۔آخر میں انہوں نے رام پرساد بسمل کی مشہور غزل کا گھسا پٹا شعر سر فروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے غلط تلفظ کے ساتھ سنایا ، جس پر نعرے لگے اور زوردار تالیاں پیٹی گئیں ۔
جیسے تیسے مکھیہ منتری جی کا طوفانی دورہ ختم ہوا اور شیخ جمن نے چین کی سانس لی ۔ جب وہ گھر پہنچے تو کافی تھکے ہوئے تھے۔سب کچھ بھول بھال کر وہ سو جانا چاہتے تھے ۔ لیکن اسی وقت ان کی بیٹی مہ جبیں بانو آگئی ۔نائلون کی ہلکی گلابی ،جالی دار نائٹ گاؤن سے اس کا جسم جھانک رہا تھا۔ لاحول ولا .......شیخ جمن بُدبُدائے۔ وہ اپنی بیٹی کے آنے کا سبب جانتے تھے۔ مہ جبیں بانو پردیس پارٹی ادھیکشک (پارٹی کے صوبائی صدر)آنند کمار پانڈے کے سپوت کمار پانڈے کے عشق میں گرفتار تھی اور چاہتی تھی کہ ڈیڈی اسے شادی کی اجازت دے دیں ۔ کانونٹ پراڈکٹ ہونے کی وجہ سے اس کے اندر مارڈن کلچر کے جراثیم بڑی تعداد میں پھیل چکے تھے۔ مذہب کی دیوار اس نئے زمانے میں اس کے لیے ایک بے معنی بات تھی۔ شیخ جمن اس مسئلے پر اس کے ساتھ گفتگو کرچکے تھے۔ اسے سمجھانے میں انہیں ناکامی ہی ہاتھ لگی تھی کیونکہ الٹے مہ جبیں بانونے انہیں ڈارون کی تھیوری سمجھانا شروع کردیا تھا۔ اس کے مطابق ہمارے آباء واجداد بندر تھے اور انسان ہومو سپائنس اسپیسیز سے متعلق ہے، ایسی حالت میں اگر ایک مسلمان کے دختر نیک اختر کی شادی کسی ہندو سے ہو یا عیسائی سے کیا فرق پڑتا ہے؟اسپیسیز وغیرہ تو خیر شیخ جمن کیا سمجھتے ، ہاں بندروں کے ذکر پر وہ ضرور چونکے ۔ سوچنے لگے کہیں اس چکر میں خود ان کا اپنا انتخابی نشان ’’بندر چھاپ ‘‘معرض خطر میں نہ پڑجائے۔
مہ جبیں بانونے کرسی پر بیٹھ کر پکارا۔’’ڈیڈی۔‘‘
’’کل گفتگو ہوگی انشااللہ، میں تھکا ہوا ہوں ۔‘‘وہ ہاتھ اٹھا کر بولے۔
’’اف ڈیڈی۔یہ میں روز روز کے انشااللہ ماشااللہ سے تنگ آچکی ہوں ۔ آپ روز ہی بزی ہوتے ہیں ۔‘‘
شیخ جمن کچھ دیر تک خاموش رہے پھر داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولے ۔’’یہ ٹھیک نہیں ہے مہ جبیں ۔ اس سے ہمارے پولٹیکل کیرئیر پر بہت بُرا اثر پڑے گا۔مسلمان اسے برداشت نہیں کریں گے بیٹی ۔‘‘
’’یہاں میری زندگی کا بھی تو سوال ہے ڈیڈی۔‘‘
’’اور میرا سیاسی مستقبل......‘‘
’’آپ اس بارے میںآنند جی سے بات کیوں نہیں کرلیتے۔ شاید وہ......‘‘
’’ٹھیک ہے اب تم جاؤ۔ میں آرام کرنا چاہتا ہوں ۔آنند جی سے ملوں گا میں ......‘‘
مہ جبیں بانوکے جانے کے بعد شیخ جمن نے ایک گہرا سانس لیا۔ وہ خود کو نیند کی وادیوں میں گم کردینا چاہتے تھے۔لیکن لاکھ کوشش کے باوجود نیند کی دیوی ان پر مہربان نہیں ہوئی ۔آنکھوں کے سامنے ناچ رہی تھی صرف ننگ دھڑنگ آوارہ لونڈوں کی جماعت ، بے چینی تیز ہوئی تو اٹھ کرانہوں نے فریج سے پانی کی ٹھنڈی بوتل نکالی اور مراد آبادی گلاس میں انڈیل کر غٹا غٹ دو گلاس چڑھا گئے ۔ نیند پھر بھی نہیں آئی ، وہی لونڈوں کی جماعت اور ان کے درمیان کھڑا بے وقوف جُمنا!
اُف یہ کیا ہوتا جارہا ہے مجھے؟
دھندلے دھندلے نقوش ابھرنے لگتے ہیں ۔ اتری بہار کا وہی گانو، وہی مٹی کی مرئیا، آنگن ، اوسار(برآمدہ)، لوگوں کی بھیڑ ،جُمنا کی ماں چھاتی پیٹ پیٹ کررورہی ہے ۔ جُمنا بھی ماں کو روتا دیکھ کر رونے لگتا ہے ۔آنگن میں چوکی پر کفن میں لپٹی اس کے باپ کی لاش پڑی ہے۔
’’کھوکھی(کھانسی)کرتے کرتے مور گیلے (مرگیا) بیچارہ۔نہ دوائی نہ دارو۔‘‘کوئی کہتا ہے۔
شیخ جمن کی نگاہوں کے سامنے ایک دوسرا چہرہ ابھرتا ہے۔کلوا ماما کا چہرہ ۔جُمنا اس کے ساتھ شہر جارہا ہے ۔شہر!اجنبی لوگ ، اجنبی راستے ، ایک بھرپور دنیا اسے اپنے ادُھورے پن کا احساس کراتی ہوئی۔
جُمنا ایک گندے ہوٹل میں کام کرتا نظر آتا ہے۔مالک کی لات، لوگوں کی گالیاں ، جوٹھے برتن اور تیس روپیہ ، جُمنا ماں کو پیسے بھیجنے لگاہے۔
اور پھرماں مرگئی۔
اور جُمنا زندگی کی گاڑی کو کھینچنے کا ہنر سیکھ گیا۔ شیخ جُمن دیکھ رہے ہیں جُمنا کو، پانچ فٹ نو انچ لمبا، مضبوط جسم ، اشرف دادا کے اڈے پر لوگوں کو دیسی دارو کی بوتلیں سپلائی کررہا ہے۔جُمنا اشرف دادا کا خاص آدمی ہے۔دایاں ہاتھ سمجھا جاتا ہے اسے، چھوٹا دادا، کس کی مجال ہے کہ بغیر پیسہ دئے مال لے جائے یا مال لے جاکرپیسہ نہ دے۔ اشرف دادا کے کئی دھندے ہیں ۔سپاری لے کر مرڈر کروانا، ہائی وے پر ڈکیتی ، جوئے اور رنڈیوں کے اڈے چلانا۔ پولیس کی کیا مجال کہ پٹھے پر ہاتھ دھر دے۔بڑے بڑے نیتا اس کی پیٹھ پر ہیں ۔شیخ جمن دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح دادا کی ایک لغزش نے ان کی زندگی کی لیلا سماپت کردی۔
اشرف دادا ورودھی پارٹی کے چکمے میں آکر ایم پی کے چناؤ میں نردلیہ(آزاد )امیدوار بن گئے ہیں ۔ستہ دھاری(برسراقتدار)پارٹی کے امیدوار ان کی وجہ سے کافی فکر مند ہیں ۔وہ دوتین دفعہ اشرف دادا سے مل کر انہیں منانے کی کوشش کرچکے ہیں ، انہیں سمجھا چکے ہیں کہ یہ ووٹ کاٹنے کی ایک چال ہے، وہ کبھی نہیں جیت سکتے، لیکن اشرف دادا کی آنکھوں میں مستقبل کا سورج روشن ہے۔وہ کوئی بات ماننے یا سننے کے لیے تیار نہیں ۔
اِکانت(تنہائی) میں جُمنا سے ملتے ہیں ستادھاری پارٹی کے امیدوار، پورے پانچ لاکھ روپے کا پرپوزل ، ساتھ میں ایم ایل اے کا ٹکٹ دلوانے کا آسواشن(وعدہ)بھی۔
دفعتاًیک دھماکے کی گونج سنتے ہیں شیخ جمن، دیکھتے ہیں اشرف دادا کی خون سے لت پت لاش!
وہ چونک اٹھتے ہیں ۔
باہر دروازے پر دستک ہورہی تھی۔انہوں نے دیکھا کھڑکی کے پردوں سے چھن کرصبح کی روشنی اندر آرہی تھی۔دستک پھر ہوئی ۔انہوں نے دروازہ کھولا۔مہ جبیں بانوبیڈ ٹی لے کر اندر آگئی۔’’ڈیڈی چائے۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘شیخ جمن تھکے تھکے لہجے میں بولے۔’’بیٹی میں نے کافی سوچا، ٹھیک ہے آج میں آنند جی سے بات کروں گا۔‘‘
’’اوہ ڈیڈ ، آئی لو یو، لو یو، لو یو ٹو مچ۔‘‘مہ جبیں بانو ان سے لپٹ گئی۔
شام کو آنند جی کے گھر پر پہنچے، آنند جی نے لپک کر ان کا سواگت کیا۔چائے پانی کے بعد آنند جی نے گمبھیرتا سے فرمایا۔’’بڑی گمبھیر سمسیا(مسئلہ) ہے جُمن جی۔‘‘
شیخ جمن سنبھل کر بیٹھ گئے۔
’’اسی سلسلے میں تو آپ سے گفتگو کرنے آیا ہوں ۔سمجھ میں نہیں آتا یہ معاملہ کیسے حل کیا جائے؟‘‘شیخ جمن ایک گہری سانس لیتے ہوئے بولے۔
’’دیکھئے جُمن جی اپنے بچوں کا معاملہ ہے۔‘‘آنند جی نے اپنے بچوں پر زور دیتے ہوئے کہا۔’’ہماری ایک چھوٹی سی بھول کے پری نام(نتیجہ )اتینت(بہت) بھینکر ہوسکتے ہیں ۔ اپنا نندو تو ہٹ یوگ میں مانو نپن ہے......جو ٹھان لیتا ہے بس وہی کرتا ہے۔‘‘
’’یہی حال تو مہ جبیں بانوکا بھی ہے۔‘‘دفعتاً شیخ جُمن کو اپنی داڑھی کا خیال آیا، انہیں لگا کہ بہت دیر سے انہوں نے اپنی داڑھی پر ہاتھ نہیں پھیرا ہے۔حالاں کہ یہ ایک بے تکا خیال تھا لیکن وہ پوری سنجیدگی سے اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرنے لگے۔ ہاتھ پھیرتے ہوئے انہیں ایک بے نام سی اُداسی اپنی گرفت میں لینے لگی۔
’’دیکھئے شیخ جی، ہمری درشٹی(نظر) میں ایک اپائے ہے۔‘‘آنند جی کڑیوں سے کڑیا ں ملاتے ہوئے بولے۔
’’آپ بولیے نا۔‘‘شیخ جُمن کے لہجہ میں بے چینی تھی۔
’’ایسا ہوسکتا ہے جُمن جی کہ وِواہ مسلمانی ڈھنگ سے بھی ہو اور ہمارے ہندو پرمپرا(روایت) کے انوسار(مطابق)بھی۔‘‘
’’یہ کیسے ممکن ہے جناب؟‘‘ شیخ جُمن لگ بھگ اچھل پڑے۔
’’سمبھو(ممکن) ہے میاں جی۔سب سمبھو ہے۔ ہم دونوں ہی دھرموں کا سُندر اُپ یوگ کریں گے۔دونوں کا نکاح بھی کروائیں گے اور اگنی کے چاروں اور پھیرے بھی لگوا دینگے۔‘‘
’’لیکن آنند جی.......مسلمان.......‘‘
’’آہا۔‘‘آنند جی ہاتھ اٹھا کر بولے۔’’سنتے جائیے ۔‘‘وِواہ اپرانت(شادی کے بعد)ہم سماچار پترو (اخبارات) اور ٹی وی کے ذریعہ اس شادی کا پرچار کریں گے۔ہم جنتا کو بتائیں گے کہ ......ارے کا کہتے ہیں اس کو ؟ارے ہاں ہاں ،وہی راشٹریہ ایکتا !تو ہم راشڑیہ ایکتا اور ہندو مسلم سوہارد(بھائی چارہ) کا اصلی روپ دکھائیں گے اپنی جنتا کو۔‘‘یہ کہہ کر آنند جی کھی کھی کرکے ہنسنے لگے۔
’’یہ سب بات پڑھے لکھے لوگ سمجھیں گے آنند جی ، عام جاہل ہندو اور مسلمان نہیںِ ِ ، سمجھے نا آپ۔‘‘
’’میں سب سمجھتا ہوں میاں جی۔اس لیے آپ اپنے میاں لوگوں کو وشواس دلائیے کہ اپنی بیٹی کا نکاح پڑھوانے سے پہلے نند کو مسلمان بنایا ہے اور ہم اپنے دھرم بھائیوں کو کہیں گے کہ ہم نے کنیا کو آریہ سماجی ہندو بنالیا ہے۔اس سے کا ہوگا کہ کنپھوجن(کنفیوزن ) پیدا ہوجائے گا ، سمجھے نا۔ہاہاہا ہا۔جُمن جی جنتا کی میموری بہتے شارٹ ہوتی ہے۔‘‘
بات شیخ جُمن کی سمجھ میں آگئی ۔انہیں کچھ راحت محسوس ہوئی ۔آنند جی کے دماغ کے وہ قائل ہوگئے ۔انہیں لگا جیسے اُن کے سر سے ایک پہاڑ کھسک گیا۔
ایک مہینہ بعد بڑی دھوم دھام سے نند کمار پانڈے اور مہ جبیں بانو ایک سوتر میں بندھ گئے ۔ملک کے اہم اخباروں نے اس شادی کو ایک تاریخی واقعہ بتاتے ہوئے اس خبر کو سرورق کی زینت بنایا۔ٹی وی چینل نے نوبیاہتا جوڑے کے ساتھ ایک بھینٹ وارتا(انٹرویو) نشر کیا۔ ہفتہ وار سیاسی رسالوں نے اس واقعہ کو خاص خبر کے طور پر پیش کیا۔ اس طرح دیش کی جنتا کو یوں محسوس ہوا مانو ملک میں صرف قومی ایکتا رہ گئی ہے ، باقی سب کچھ ختم ہوگیا ہے۔
شادی کے دوسرے ہفتہ مجلس وزراء میں پھیر بدل کی گئی ، کچھ نکالے گئے ، کچھ نئے لیے گئے۔ نئے وزیروں میں شیخ جُمن بھی شامل تھے ۔ اس رات سپتھ گرہن سمارہ(جشن حلف برداری) سے لوٹ کر شیخ جمن رات گئے تک بستر پر کروٹیں بدلتے رہے ۔پتہ نہیں انہیں خوشی کے مارے نیند نہیں آرہی تھی یا کسی دکھ نے آگھیرا تھا۔عمر خیام کی رباعی پر مبنی پینٹنگ ۔ساقی ،صراحی اور جام میں وہ بہت دیر تک الجھتے رہے ۔ساقی ،صراحی اور جام ، نہیں نہیں سپاٹ اسکرین......نہیں نہیں جُمنا......نہیں نہیں اشرف دادا کی لاش......نہیں نہیں مہ جبیں بانو کی لاش۔۔۔نہیں ٹوپی داڑھی والے مسلمان اور ان کے ہاتھوں میں تلواریں ، گنڈاسے......نہیں شیخ جُمن کی لمبی داڑھی ......چھوٹی داڑھی ......داڑھی کے بال ......بالوں کے گچھے.......گچھے نہیں کُتے .......بہت سارے کُتے ...... اسٹیج پر بھاشن ......نیتا کی آنکھوں میں جُمنا......داڑھی والا تلوارلیے دوڑرہاہے......ایک بے سر کی لاش......لاش کے جسم پر جُمنا کی ڈوری والی قمیض......چہرا ، کس کا چہرا ......چہرے کے سر پر گاندھی ٹوپی ......ٹوپی کے اوپر کُتا...... باتھ روم کے نل سے جھر جھر پانی......
شیخ جمن کی نیند کھل گئی ، کچھ بھی نہیں تھا۔ کمرہ خالی تھا۔انہیں محسوس ہوا بستر گیلاہے ۔ان کا پائجامہ بھی گیلا تھا۔شاید ان کی پیشاب خطا ہوگئی تھی۔
ایک ہفتہ بعد اخباروں میں موٹی موٹی سرخیاں تھیں ۔صوبائی وزیرشیخ جُمن عمرہ کے لیے مکہ روانہ ........