درد بڑھ کر دوا نہ ہو جائے
درد بڑھ کر دوا نہ ہو جائے
زندگی بے مزہ نہ ہو جائے
روکتا ہوں مژہ پہ میں آنسو
گر کے دل کی صدا نہ ہو جائے
نگہ التفات کے صدقے
دل کی دھڑکن سوا نہ ہو جائے
روز مرتا ہوں روز جیتا ہوں
تیرا وعدہ وفا نہ ہو جائے
آپ سے شکوہ اے معاذ اللہ
لب تک آ کر دعا نہ ہو جائے
وہ کسی کام کا نہیں جو دل
درد سے آشنا نہ ہو جائے
سینا اکثر ہے سوز سے خالی
زیست بے مدعا نہ ہو جائے
اف یہ تہذیب نو کی خوں خواری
خون انساں روا نہ ہو جائے
دل لگی دل لگی میں دیکھ حبیبؔ
عشق کی ابتدا نہ ہو جائے