درد آشنا لوگ
غیر ارادی طور پر میں نے اپنے قدم روک لیے، کہ کہیں میرے پیروں تلے کوئی لاش، کوئی زخمی نہ آجائے۔ مگر وہاں گرد و غُبار کے سوا کچھ نہ تھا۔دو ماہ سے بند اسکول میں اس کے سوا ہو بھی کیا سکتا تھا۔ مجھے لمحہ بھر کو ایسا لگا کہ جیسے کچھ لوگ خون میں لت پت ادھڑی ہوئی لاشوں کو سیاہ پلاسٹکوں میں لپیٹ کر سفید میڈیکل ٹیپ سے باندھ رہے ہوں، ہلکے پلائی وڈ کے تابوتوں میں رکھ کر کسی عارضی اجتماعی قبر کی خوراک بنانے کے لیے۔
ناعِمہ کی ای میل کے لفظوں کا کرب اب بھی میرے ساتھ ساتھ تھا۔
مسخ لاشیں جو کبھی خوبصورت چہرے۔۔۔ طاقتور بازو۔۔۔ فراخ سینے رکھتی ہوں گی اب دریدہ دریدہ تھیں، جیسے قصاب کسی جانور کی کھال ادھیڑ کر زمین پر ڈال دے۔
مجھے لگا قصاب کا اگلا مرحلہ گوشت کے پارچوں کو نوکیلے کانٹوں میں پرو کر منڈی میں سجانے کا ہوگا۔
عالمی منڈی میں۔۔۔ لبنان کا نرم و گداز، حسین، سستا گوشت۔۔۔
میں کانپ کر رہ گیا۔
چند ساعتوں بعد اسکول کا کوریڈور دکھائی دیا۔ سُنسان اور گرد آلود۔۔۔ جا بجا چپس کے خالی ریپر اور چیونگم کی مُڑی تُڑی پنیاں۔۔۔ کھڑکیوں کے ٹوٹے شیشوں کی درزوں سے دھوپ کی کرنیں کوریڈور کے اندھیرے کو تلوار کی تیز دھار کی طرح کاٹتی ہوئی گزررہی تھیں۔
میں بوجھل سراٹھائے دفتر کی گرد آلود کرسی پر ڈھیر ہوگیا۔ گہری گہری سانسوں اور بند آنکھوں میں منظر پہلے جیسا کرب انگیز تھا۔
اسکول عورتوں، مردوں اور بچوں سے اَٹا پڑا تھا۔ افراتفری مچی ہوئی تھی۔ بھوک اور پیاس سے بدحال چہرے۔۔۔ بچوں کی بلکتی ، مچلتی آوازیں۔۔۔ ہر کمرے میں کئی کئی خاندان، بے آسرا اور بے گھر۔۔۔ کچھ نڈر لوگ گاڑیوں میں جا کر قریب ترین آبادی سے امدادی سامان لے کر آئے تھے۔ مگر وہ ناکافی رہا۔
وقفے وقفے سے فضا طیاروں کی گڑگڑاہٹ اور شور سے لرز اٹھتی۔ کہیں دور و قریب سے بمباری کی آوازیں بھی آنے لگتیں۔ اسکول کی عمارت سے ایک فرلانگ آگے یہی سڑک مرکزی شارع سے جا ملتی تھی، جہاں کئی عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن چکی تھیں۔ عمارتوں کے بیرونی حصے راکٹوں کی زد میں آ کر تباہ ہوچکے تھے اور آس پاس ملبے کا ڈھیر انسانیت کا مُنہ چڑارہا تھا۔
ناعِمہ کی ای میل اپنے پورے منظرنامے کے ساتھ میرے سامنے تھرک رہی تھی۔ جسے میں رات دیر تک بار بار پڑھتا اور آنسو بہاتا رہا تھا۔ میرا دوست حسن طائر کے نزدیک ایک اسکول میں قائم کردہ عارضی ہسپتال میں زخمی حالت میں پڑا تھا۔ حسن سے میری پہلی ملاقات کراچی میں تب ہوئی تھی جب ہم دونوں جامعہ کراچی میں فارمیسی کے طالب علم تھے۔ ماسٹرز کرنے کے بعد وہ بیروت لوٹ گیا۔
اب ہمارے درمیان نیٹ کے ذریعے اکثر رابطہ رہتا تھا۔ مگر کل رات کی ای میل سے میں دہل کر رہ گیا۔ یہ میل حسن کی بیوی ناعِمہ نے بھیجی تھی۔
پاکستان سے جانے کے بعد سب سے پہلے حسن نے جو کام کیا، وہ شادی تھی۔ ناعِمہ اس کی خالہ زاد تھی۔ دونوں بچپن ہی سے منسوب تھے۔ میں نے حسن کے والِٹ میں ناعِمہ کا فوٹو دیکھ رکھا تھا۔ لبنانی کس قدر خوبصورت ہوتے ہیں، اس کا صحیح اندازہ مجھے ناعِمہ کا معصوم حُسن دیکھ کر ہوا۔
ای میل کرنے کو حسن نے ہی کہا تھا۔ اس نے ناعِمہ سے یہ بھی کہا کہ وہ مجھ سے پوچھے کہ بتاؤ یہ کیسے ثابت کرو گے کہ تم نے اس درد کو اتنا ہی محسوس کیا ہے جتنا میں اس لمحے ریڈ کراس کے عارضی ہسپتال میں پڑا اپنے اور اپنے لبنان کے جسم کی ایک ایک نس میں محسوس کررہا ہوں۔ اور کیا تم عالمی ضمیر کو بیدار کرنے میں کوئی کردار ادا کرسکتے ہو؟
ناعِمہ نے جو کچھ لکھا وہ دہلا دینے کے لیے کافی تھا۔ نیند میری آنکھوں سے امن کے پرندے کی طرح اڑ کر کہیں غائب ہوچکی تھی۔ صبح اٹھا توسر پھوڑے کی طرح دکھ رہا تھا۔ دو دن پہلے میرے اسکول میں کام کرنے والے چپراسی اور دونوں ماسیوں کو اسکول پہنچنے کے لیے کہہ چکا تھا تاکہ چھٹیوں کے ختم ہونے سے پہلے اسکول کو ہر طرح صاف اور ترتیب میں لے آئیں۔ مگر یہاں آکر ناعِمہ کا لکھا ہوا ایک اک لفظ مکمل فلم کی طرح میری آنکھوں کے سامنے چلنے لگا۔
تھوڑی دیر میں ناجو، گریس اور شوکت آگئے اور اپنے کام میں جُت گئے۔ لمحوں میں اسکول کی دیواروں، بنچوں، اور فرش پر جمی گرد نے پوری فضا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ میں نے دفتر کا دروازہ بند کرلیا۔ اب میں دھول مٹی سے محفوظ تھا۔ مگر ڈیسکوں کے اِدھر سے ادھر سرکنے اور رکھنے کی آوازیں خالی عمارت میں گونج پیدا کررہی تھیں۔ اچانک ایسا لگا جیسے زوردار دھماکا ہوا ہو۔ میں کرسی سے اچھل پڑا۔ شاید شوکت کے ہاتھ سے وزنی ڈیسک چھوٹ گئی تھی۔ منظر پھر چلنے لگا۔
اسرائیلی طیارے نے چلتی ہوئی ٹیکسی کا نشانہ لیا تھا۔ دھماکہ ہوا اور کاراچھل کر سڑک سے نیچے اتر گئی۔ کار کا اگلا حصہ بُری طرح تباہ ہوچکا تھا۔ ناعِمہ کی بھیجی ہوئی پوری ای میل میرے ذہن میں دوڑنے لگی۔
ان حالات میں حسن کو طائر نہیں جانا چاہیے تھا۔ لیکن جب اسے پتا چلا کہ فرانس سے ایک امدادی ٹیم جرمنی کے بحری جہاز کے ذریعے طائر کی بندرہ گاہ پہنچ رہی ہے تو اس سے رہا نہ گیا، اور چلا گیا۔ مگر وہاں پہنچنے سے پہلے ہی ایک راکٹ نے اس ٹیکسی کو ہٹ کیا۔ ڈرائیور کی وہیں موت ہوگئی، حسن بری طرح زخمی ہوگیا۔ مقامی لوگوں نے اسے گاڑی سے نکال کر ریڈ کراس کے عارضی ہسپتال پہنچایا۔ مجھے جوں ہی اطلاع ملی میں پریشان ہوگئی۔ شاید تمہیں اندازہ نہ ہو کہ میں وہاں کیسے پہنچی۔ یہ عارضی ہسپتال ایک اسکول میں قائم ہے، جو آئی ڈی پی کے تحت ریڈ کراس والے چلا رہے ہیں۔ حسن سے ملنے کے بعد میں نے دوسرے زخمیوں کو دیکھا تو مجھے حسن کے زخم بہت معمولی لگے۔ اسکول کے ایک حصے میں وہ لوگ آباد ہیں، جن کے گھر تباہ ہوگئے یا شہر خالی کرنے پر مجبور ہوئے۔ انہیں دیکھتی ہوں تو بدن کا خون آنسو بن کر بہنے لگتا ہے۔ میں شوہر کے زندہ بچنے پر خُدا کی شُکر گزار ہوں، مگر لبنان کے زخموں پر ماتم کناں بھی ہوں۔
میں تمہیں یہ بتا کر شاید حیران کروں کہ حسن اس حالت میں بھی ہنس رہا ہے۔ اس نے مجھ سے آئندہ کے بارے میں بات کی، مستقبل کے خواب سجائے۔ اس نے مرنے والے ڈرائیور کی خوشبو بھری باتیں سُنائیں۔ اس بوڑھے شخص نے زندگی کا جو آخری نغمہ گایا، وہ سُنایا۔ اس نے تمہارے بارے میں باتیں کیں۔ جب تم نے اسے یونیورسٹی کے گیٹ پر بدمعاشوں سے بچایا تھا۔ وہ تمہیں اور اس ڈرائیور کو یکساں اپنا محسن مانتا ہے۔
مگر وہ یکایک اداس بھی ہوجاتا ہے۔ مجھ سے کہتا ہے، ناعِمہ! میں کئی دن بھوکا رہ سکتا ہوں۔ مگر لبنانی بچوں کو دودھ نہیں ملا تو کیا ہوگا؟ زخمیوں کو دوائیں نہ ملیں تو زخم کیسے بھریں گے؟ ہم عمارتیں، سڑکیں، پُل دوبارہ بنالیں گے۔ لیکن ٹوٹی ٹانگوں، لٹکے بازوؤں اور زخمی پیشانیوں کا صحیح ہونا اورلبنانی بچوں کو دودھ ملنا بہت ضروری ہے ‘‘۔
ایک بار پھر میری آنکھوں میں ای میل کا ایک اک حرف اسی طرح اتررہا تھا جیسے رات کو کمپیوٹر کی اسکرین پر دیکھا تھا۔ رات سے اب تک میری آنکھوں پر آنسوؤں کا قبضہ اسرائیل کی طرح برقرار تھا۔ اچانک فون کی گھنٹی بج اٹھی۔ دوسری طرف میری ماں تھی۔
’’تمہاری بیوی نے معصوم سے بچے کو صبح سے بھوکا رکھا ہوا ہے۔ دو دھ نہیں دے رہی ہے۔ تم دونوں کوایک بچہ پالنا نہیں آتا‘‘۔
’’امی آپ بھی حد کرتی ہیں۔ میں کیا پاگل ہوں، جو اسے بھوکا رکھوں گی۔ لائیے فون مجھے دیجئے‘‘۔
پیچھے سے میری بیوی کی آواز سُنائی دی۔ فون لیتے ہوئے وہ مجھ سے مخاطب ہوئی۔
’’صبح آپ نیٹ کُھلا چھوڑ گئے۔ سوری! میں نے ناعِمہ کی ای میل پڑھ لی۔ پہلے پہل تو واقعی میرا دل چاہا کہ میں معاذ کا دودھ بند کردوں، مگر ایک انہونی ہوگئی۔ جب میں نے معاذ کو دودھ بنا کر دیا تو اس نے ایک سِپ بھی نہیں لیا۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے میں نے دوبارہ تازہ فیڈر بنا کر دیا مگر اس نے تب بھی نہیں لیا۔ پھر میں نے پانی میں بالکل پتلا سا دلیا دیا تو وہ کھالیا ہے۔ وہ بھوکا نہیں ہے۔ امی خوامخواہ پریشان ہورہی ہیں‘‘۔
میں یہ سُن کر حیران رہ گیا۔ میری آنکھوں کی نم آلود پلکوں سے آنسو خود بخود چھلک گئے۔ گذشتہ رات میں نے ناعِمہ کی ای میل کا جواب نہیں دیا تھا۔ میری حالت ہی ایسی نہیں تھی کہ کچھ لکھ بھیجتا،مگر اب مجھے الفاظ مل گئے تھے۔ میں حسن کو ناعِمہ کے ذریعے یہ پیغام دینا چاہتا تھاکہ مانتا ہوں کہ میں ایک پرائیویٹ اسکول کا ایڈمنسٹریٹر ہوں اور میرا کردار بہت محدود ہے، لیکن میری بیوی اپنی صحافیانہ ذمہ داریوں کو محسوس کرتے ہوئے اپنا کردار ضرور نبھائے گی۔ یہ سچ ہے کہ میری بیوی کے دودھ نہیں اترتا اور ہم اپنے بیٹے جس کا نام معاذ تم نے تجویز کیا تھا کو بازار کے ڈبوں والا دودھ پلانے پرمجبور ہیں۔ لیکن تمہیں یہ جان کر حیرت ہوگی کہ میرا بیٹا لبنان کے ان تمام معصوم بچوں کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر کھڑا ہے، جن کے لیے دودھ میسر نہیں۔ ہم میاں بیوی تمہاری صحت کے لیے دعا گو ہیں، اور ہمارا بیٹا لبنانی بچوں کے شانہ بشانہ۔
(۲۰۰۶ء)