در رہا سب پہ جو سخنور ہے

در رہا سب پہ جو سخنور ہے
شعر تیغ زباں کا جوہر ہے


بات اپنی یہ سن کے کان میں ڈال
آبرو مثل آب گوہر ہے


عشق بن کیا کسی کا دل ہو گزار
موم بے آگ دیکھے پتھر ہے


دل کا دینا سراسری مت جان
جان پر کھیلنا سراسر ہے


کیا مخالف ہے اس چمن کی ہوا
خار دیتا ہے جو گل تر ہے


نوک رکھ لو برہنہ پائی کی
آباد خار دشت نشتر ہے


اب تو جاتے ہیں اس گل میں نسیمؔ
ہو رہے گا جو کچھ مقدر ہے