ڈگمگاتا لڑکھڑاتا جھومتا جاتا ہوں میں
ڈگمگاتا لڑکھڑاتا جھومتا جاتا ہوں میں
تجھ تک اے باب فنا سینے کے بل آتا ہوں میں
شہر کی باریکیوں میں پھنس گیا ہوں اس طرح
چین کی اک سانس کی مہلت نہیں پاتا ہوں میں
جب بھی ریگستانوں میں جانے کا ہوتا اتفاق
گھٹنے گھٹنے ذات کی پرتوں میں دھنس جاتا ہوں میں
چل کے باغ سیب میں اوراق جمشیدی پڑھوں
اپنی کیفیت سے خود کو بے خبر پاتا ہوں میں
گوشے گوشے میں فروزاں آتش لب ہائے سرخ
اس شفق میں دم بہ دم آنکھوں کو نہلاتا ہوں میں
آہ وہ آنکھیں کہ جن کے گرد ہے اودا غبار
گہہ کنوئیں میں ڈوبتا ہوں گہہ ابھر آتا ہوں میں