داڑھی

’شرما وِلا‘ میں رہنے والے ایک ایک فرد کا چہرہ سوال بنا ہوا تھا۔
اے پی شرما ملازمت سے سبک دوش ہو چکے انردھ پرساد شرما شام پانچ بجے اِوننگ واک کے لیے گھر سے نکلے تھے اور ابھی رات کے دس بجے تک واپس نہیں لوٹے تھے۔ دو بیٹوں بڑے اور چھوٹے، دو بہوؤں بڑی اور چھوٹی اور سونو نام کے ایک پوتا والے اے پی شرما کا یوں تو یہ ان کی اپنی خاص طرز زندگی کا ایک حصہ تھا لیکن تشویش والی بات یہ تھی کہ اس ہاڑ کپا دینے والی سردی میں اے پی شرما یعنی کہ ڈیڈ اپنا اوور کوٹ اور ہیٹ ساتھ لے جانا بھول گئے تھے۔ اس کے بنا انہیں سردی لگ جائے گی، سانس کی پریشانی بڑھ جائے گی اور ’ شرما وِلا‘ کی اینٹیں ہل جائیں گی۔
بڑے، دو بار احمد بھائی کی چائے دکان کا چکّر لگا آیا تھا۔اکثر بیٹھا کرتے ہیں وہاں۔ٹیکسی ڈرائیوروں کا اڈّا ہے۔ خوب چھنتی ہے ان کے ساتھ بڑھؤ کی۔ کتنی بار منع کیا ہے، مت بیٹھا کریں وہاں... کیسے بیٹھ لیتے ہیں، ماں کا لونڑا... بین کا لونڑا کرنے والوں کے ساتھ... پر کہاں ماننے والے۔ بس ایک ہی جواب، دخل مت دیا کرو میرے معاملوں میں...ٹھیک ہے بھئی، نہیں دیتے دخل...کرو جو جی میں آئے...۔
لیکن آج تو وہاں بھی نہیں تھے۔ چھوٹے نے ان کے سبھی ملنے والوں، جو انگلیوں کی گنتی بھرتھے، کوفون لگا کر پوچھ لیا تھا۔ کہیں نہیں تھے، کسی کے پاس نہیں تھے۔
ٹی وی پر موسم کا حال بتانے والی اس لڑکی نے جو، جیسے ناک سے بولا کرتی تھی، جو بالکل پسند نہیں آتی تھی ڈیڈ کو ، ان کے مطابق ’ممیاتے‘ ہوئے بتایا تھا، ٹمپریچر پانچ ڈگری۔ کہنے پر یقین ہی نہیں کریں گے۔ نہیں کریں گے کہ انہیں اس کا ’ممیانا‘ پسند نہیں۔ ار... رے ...کسی کی ممیانے جیسی آواز کیول ہونے سے حقیقت تھوڑے بدل جائے گی۔ درجۂ حرارت پانچ ڈگری ہے تو وہ پانچ ڈگری بتائے گی۔اس کی آواز سے کیا لینا دینا؟لینادینا توپانچ ڈگری کے ٹیمپریچر سے ہے۔ اب اُسے وہ ممیاکر بتائے یا ہنہنا کر بتائے۔ پچھلے پانچ سالوں کا ریکارڈ ٹوٹا ہے۔ ایسا کہرا اور سردی کہ گلی کے کتّے کتیاّں بھی دبکے پڑے ہیں کونے کھدروں میں۔ بھئی کیا کریں ... دبکیں نہیں تو...کچھ ہو ہوا گیا تو انہیں کون لے جانے والا ڈاکٹر حکیم کے پاس۔ یہاں تو یہ ہے کہ ...ہم ہیں پڑے... ایک ایک فرد...ایک ایک پیر پر کھڑا...یہ ڈاکٹر، وہ ڈاکٹر کرنے والا...سانس کے مریض کے لیے ٹھنڈک، دھول، دھواں تو ویسے بھی زہرہے، لیکن کون سمجھائے... سمجھایا تو سونو کو جاتا ہے...بچیّ کو...ناتی،پوتاوالے کو سمجھانا، کیا خود کو بے وقوف بنانے جیسا نہیں ہے اور اگر کوئی سمجھانے کی جرأت کر بھی لے تو چھلاّ بنا کر سگریٹ کا دھواں ایسے اس کے منہ پر اگلیں گے جیسے...کر لو، جو کرنا ہے...۔
بڑھؤ نے ایکدم سے ناک میں دم کر دیا ہے...۔
بڑی کئی بار جھانک آئی تھی چینل سے باہر۔ سونو کو بھیجا کئی بارمفلر ٹفلر باندھ کر گلی کے موڑ پر، آنکھیں گڑا کر دیکھنے کے لیے کہرے میں۔ اوپر سے شال بھی لپیٹا۔چو رہا ہے ٹپ ٹپ۔ جیسے اوس نہیں، پگھلے ہوئے اولوں کی بارش ہو رہی ہو۔
چھوٹی، شام سے ہی جو کھڑکی سے لگی کھڑی تھی، تو ہلی نہیں تھی۔ ابھی پچھلے سال آئی تھی وہ۔ اتنے دنوں میں ہی پہچان گئی تھی ڈیڈ کی آہٹ کو۔ہر آہٹ پر کان لگائے کھڑی تھی۔
بڑے سے رہا نہیں گیا۔ وِنڈچیٹر کی ٹوپی باندھتا پھر نکلابے چین من کو شانت کرنے۔دل میں اندیشہ...سردیوں میں اینٹھ کر کہیں گرے پڑے نہ ہوں...بڑھاپے کی ہڈیاں...کہاں جھیل پائیں گی ہڈیوں میں چھید کر دینے والی کنکنی... اور من میں کھیج بھی...کیا ضرورت تھی ایسی سردی میں باہر جانے کی... اور وہ بھی بنا گرم کپڑوں کے... سچ، بڑھؤ نے ایکدم سے...کیا، کوئی اس طرح بھی پریشان کرتا ہے...اور یہ اوس...چہرہ بھیگ رہا ہے، جیسے اوس کی شکل میں پھوہاریں پڑ رہی ہیں۔
روزانہ کا معمول ہے۔ مارننگ واک اور اِوننگ واک۔ ریٹائرمنٹ کے بعد کی بیماریاں ہیں یہ سب۔ریل میں تھے تو اٹارسی ممبئی کرتے رہے۔وہ جو پھرکی بندھی پیروں میں تو آج تک بندھی ہے۔ کتنی بار کہا، تھک گئے ہیں...آرام سے رہیے...محلّے کے اور بوڑھوں کو دیکھئے...آرام کر رہے ہیں...ان سے کسی کو پریشانی نہیں ہوتی...شام کو سب پارک میں جمع ہوتے ہیں...لیکن انہیں تو دنیا کے سبھی بوڑھوں سے چڑھ ہے... کیسی حقارت سے کہتے ہیں... بلڈی اولڈمین... ہاں بھئی، اولڈمین تو ہیں...آپ بھی تو کوئی جوان نہیں ہو...سانس کے مریض ہیں...پانچ بجے سے جو نکلے ہیں تو اس سردی میں ابھی تک کہاں ہیں، کچھ اتا پتا نہیں ہے...۔
گلی کا موڑ مڑتے ہی چوراہے کی طرف جانے والی سڑک تھی۔گھنگھورکہرے کی وجہ سے زیادہ دور تک دکھائی نہیں دے رہی تھی، بس کچھ دور تک دھواں بھرے پائپ ہول سی لگ رہی تھی۔
چوراہے پر دھند کے پیراہن میں لپٹے ایک ٹھیلے کے پاس ڈیڈ دہی بڑے کھاتے ہوئے نظر آگئے تھے۔ یہ منظر دیکھ کر تو بڑے کے پیروں کے نیچے سے جیسے زمین سرک گئی تھی۔
’ڈیڈ...یہ کیا کر رہے ہیں...؟‘ بے انتہا سردی اور بے انتہا خفگی... اس کے منہ سے بھک بھک بھاپ کے گولے نکلے۔
’دہی بڑے کھا رہا ہوں...‘ ڈیڈ پرسکون تھے۔ ٹھیلے والے سے اور مرچی ڈلوا رہے تھے۔
’اس موسم میں...؟‘ وہ اندر سے تقریباً اپنی پوری قوت کے ساتھ چیخ رہا تھا۔
’دہی بڑوں کا کوئی موسم ہوتا ہے...؟‘ ذرا رکے تھے ڈیڈ، پہلے کی طرح پرسکون لہجہ میں بولے۔ ’دراصل یہاں تم دہی بڑا اور موسم کی بات نہیں کر رہے ، تم ان دونوں کے چشمہ سے میری عمر کو دیکھ رہے ہو... اکثردیکھتے ہو... اکثر لوگ دیکھتے ہیں...برخوردار...جیون کا پہیہ عمر سے نہیں من کی طاقت سے چلتا ہے...‘ ڈیڈ نے لکڑی کاچمچ دونے کے کونے کونے میں گھمایا تھا۔ ’پر تم‘ اتنی سردی میں، اتنی رات کو، کہاں جا رہے ہو...؟‘
حالات بدل گئے تھے۔ جملے کو توڑ توڑ کر ڈیڈ نے جو الٹ بانسی کی تھی اس سے اس کا ذہن ماؤف ہو گیا تھا۔ ’کہاں جا رہا ہوں...؟‘ کہاں تو اسے اتنی دیر تک ان کے غائب رہنے کی وجہ پوچھنی تھی اور پوچھ کر اپنی کھیج کو شانت کرنا تھا، کہاں اب اسے اپنی صفائی سوچنی پڑ رہی تھی۔ اس مضحکہ خیز، بے بس حالات کے لیے وہ قطعی تیار نہیں تھا۔
’میں تو آپ کو دیکھنے نکلا تھا...‘
’مجھے دیکھنے...کیا میں بچہّ ہوں... سونو ہوں... کیا میں اپنی دیکھ بھال بھی نہیں کر سکتا...دیکھومسٹر...‘
’اوکے...اوکے...‘ سپردگی کا تاثر۔ ’چلیے، گھر چلتے ہیں...‘ زبردست صبرواستقلال کا ثبوت دیتے ہوئے اس نے کہا۔ اس کی خواہش ہو رہی تھی، زور زور سے چیخے، چیخنے لگے۔
وہی ہوا تھا۔ ڈیڈچھینکنے لگے تھے۔ چھینکنا شروع کرتے تو چھینکوں کی لڑی جھڑی لگا دیتے۔بڑی نے جلدی جلدی جوشاندہ اونٹا، چھوٹی لے کر کمرے میں گئی۔ سوچا، کمبل ومبل اوڑھ کر لیٹے ہوں گے ڈیڈ۔ لیکن ڈیڈ تو...کمپیوٹر پر فیس بک کھلا ہوا تھا۔ تھوڑا جھکے، مانیٹر پر آنکھیں گڑائے، ڈیڈ نیٹ سرفنگ میں مصروف تھے۔ جوشاندہ کا پیالہ ماؤس کے پاس رکھتے ہوئے وہ کن انکھیوں سے دیکھنے لگی۔ خوبصورت گھنے بالوں والی تھی وہ، جس کی پروفائل ڈیڈ غور سے پڑھ رہے تھے۔ اس نے ہڑبڑا کر پیالہ رکھ دیا اور جانے کے لیے مڑ گئی ۔
’رکو...‘ ڈیڈ کی رعب دار آواز گونجتے ہی اس کے پیر زمین سے چپک گئے۔کھڑی ہوکر ان کی آواز کی اگلی کڑی کا انتظار کرنے لگی۔
’برکھا اوستھی... میری نئی فرینڈ...گڑگاؤں کی ہے...عمر 31 سال...انٹیرئیر ڈزائنر ہے۔جانتی ہو، کل میں نے اسے فرینڈ بننے کے لیے انوٹیشن بھیجا تھا... میرا انوٹیشن قبول کر اس نے مجھے ’ہاے‘ کہا ہے...‘ ڈیڈ مچل اٹھے تھے۔ ’...اور اسی کے ساتھ میرے نائنٹی نائن فرینڈ ہوگئے...‘ ان کا جوش اور ولولہ دیکھنے کے قابل تھا۔
ڈیڈ مانیٹر پر کچھ اور جھک گئے تھے ۔’ار...رے...یہ کیا...؟‘ ان کاجوش مزید بڑھ گیا تھا۔
برکھا آن لائن تھی۔ ڈیڈ کو چیٹ کی دعوت دے رہی تھی۔
’بیٹھو بیٹھو...چیٹ کرتے ہیں...‘ ڈیڈ نے چھوٹی کا ہاتھ پکڑ کر پاس میں بیٹھا لیا تھا۔
’ہائے...آپ کون ہیں؟‘ ادھر سے برکھا پوچھ رہی تھی۔
’میں اے پی شرما...انردھ پرساد شرما...‘ ڈیڈ میسیج باکس میں ٹائپ کرنے لگے۔ ’آپ نے میرا پروفائل دیکھا ہوگا...ریٹائرڈ ریلوے ملازم ہوں...دو بیٹے ہیں ...دہلی میں کچھ کچھ کرتے ہیں... دونوں بہویں تعلیم یافتہ اور مہذب ہیں... آپ کو دھرتی پر جنت اگر دیکھنا ہے تو میں آپ کو ’شرما ولا‘ آنے کی دعوت دیتا ہوں...‘
’رومانس...؟‘
ڈیڈ پھڑک اٹھے تھے۔ چھوٹی کے کان کے پاس منہ لے جاکر پھسپھسائے، ’رومانس کے بارے میں پوچھ رہی ہے...‘ اس قدر دھیمی آواز کہ برکھا سن نہ لے۔ ’بتاؤ. .. بتاؤ کیا لکھوں اسے...؟‘
چھوٹی اکبکا گئی ۔ ڈیڈ کا منہ دیکھنے لگی ۔ کیا کہے، اسے کچھ سمجھ میں ہی نہیں آ رہا تھا۔ ذرا دیر انتظار کے بعد ڈیڈ خود ہی جواب ٹائپ کرنے لگے تھے۔
’میرے خیال سے رومانس کوئی خاص واقعہ یا عمل نہیں ہوتا...یہ ایک نظریہ ہے...مثبت بھی...منفی بھی... یہ آپ پر انحصار کرتا ہے کہ آپ زندگی میں مثبت ہیں یا منفی... زندگی میں ملنے والا ہر درد...ہر خوشی...ہر جیت...ہر ہار، عمر کا ہر پڑاؤ... پوری کی پوری زندگی...پیدا ہونے سے لے کر موت تک کا پورا سفر، رومانس ہے... پوری زندگی ہی رومانس ہے... اس کی وسعت کو کسی دائرے میں محدود کرنے کے حق میں میں نہیں...اسے اس کے حقیقی شکل...‘
چھوٹی کو نیند آ رہی تھی۔بار بار منہ پھاڑ کر جمائی لے رہی تھی۔ نہ جانے ڈیڈ کا یہ دوستانہ کب تک چلنے والا تھا۔دروازہ پر آکر چھوٹے کئی بار اشارہ کر گیا تھا، اپنا سر پیٹ گیا تھا۔ ڈیڈ بھی جو ہیں نا...خود تو اس عمر میں...آج تو بری طرح پھنس گئی تھی وہ۔ اس نے قصداً منہ کو پورا پھیلا کر جمائی لی۔ ’ڈیڈ...بارہ بج گئے...‘
ڈیڈ کا ذہن وقت کی جانب مبذول ہوا۔ ’ارے ہاں‘ جاؤ جاؤ، سو جاؤ...‘ ڈیڈ نے ایسے کہا تھا جیسے اسے جانے کی اجازت دے کر اُس پر بڑا سا احسان کیا ہو۔
رات میں سردی بارش بن کر برس گئی تھی۔ صبح سب کی آنکھیں کھلیں تو تیز بھیگی ہوئی ، کنکنی ہوا چل رہی تھی۔گھر آنگن، گلی محلہ کچ کچ ہو رہا تھا۔ ڈیڈ کے کمرے میں دیکھا گیا تو ڈیڈ نہیں تھے۔ مارننگ واک پر نکل گئے تھے۔ بڑے کا دماغ گرم ہو گیا تھا۔
’بتاؤ تو...پوری رات کھائیں کھائیں کیے ہیں...اور اتنے خراب موسم میں مارننگ واک سوجھ رہی ہے بڑھؤ کو...میں تو کہتا ہوں، آج ہمیں انہیں اچھی طرح سمجھانا ہی ہوگا...دیکھو چھوٹے...تمہیں بھی اگر چین سے رہنا ہے تو...ہمیں منہ کھولنا ہی ہوگا...ارے یار، اب تو حد ہو گئی ...اس طرح بھی کوئی ...‘
جوتوں کی دھمک سنائی دی تھی۔ یقیناًڈیڈ ہوں گے۔ ڈیڈ کے جوتوں کے علاوہ، ایسی دھمک کوئی اور پیدا کر ہی نہیں سکتاتھا۔ سب کے کان کھڑے ہو گئے تھے۔ آٹا چالتی بڑی، لوکی کترتی چھوٹی، ڈاڑھی بناتا بڑے، اِستری کرتا چھوٹے اور دانت مانجھتا سونو، لمحہ بھر کے لیے سب کے ہاتھ جہاں تھے، وہیں رک گئے تھے۔ سب کی آنکھیں ایک دوسرے سے الجھ گئی تھیں۔ ’کھڑا کیا ہے...جاکر دیکھ نا...‘ بڑی نے منہ سے کم آنکھوں سے زیادہ کہا تھا سونو سے۔ وہ گیا، آیا۔ہاں میں گردن ہلائی۔ لوکی کترنا چھوڑ چھوٹی نے برآمدہ میں جھانکا تھا۔ چینل کے باہر ڈیڈ پیر پٹک کر جوتوں میں لگی کیچڑ جھاڑ رہے تھے۔
’اوف‘ اتنی کیچڑ... پھر دلی میں رہنے کا کیا فائدہ...گاؤں ہی ٹھیک ہے...‘
محض اتنا ہی سن پائی تھی وہ۔ کلیجہ دھک...اب گاؤں جانا پڑے گا...چینل کھول برآمدے میں آکر ڈیڈ جوتا کھولنے لگے تھے۔جھکاجھک سفید جوتا کیچڑ سے گدڑی بن گیا تھا۔اس درمیان چھوٹی سے بڑی تک، بڑی سے بڑے تک، بڑے سے چھوٹے تک اور چھوٹے سے سونو تک پھس پھس کرتی لیکن تیز رفتار سے بات پہنچ گئی تھی، اب گاؤں جانا پڑے گا۔ کیوں رات میں بونداباندی ہوگئی...کیوں ڈیڈ اس موسم میں بھی ٹہلنے نکل گئے ...کیوں ان کے جوتوں میں کیچڑ لگ گئی...کیوں...کیوں...اچانک نہ جانے کتنے سوال سبھی کے دلوں کو کچوٹنے لگے تھے۔
’بڑے...‘ یہ ڈیڈ کی آواز تھی۔ہو گئی چھٹی ۔ اب باندھو بوریا بستر...
’گاؤں جانا ہے ڈیڈ...؟‘سامنے حاضر ہوتے ہی بڑے نے پوچھا تھا۔
’گاؤں...‘ڈیڈ اکھڑ گئے تھے۔ گاؤں جاکر کیا کروگے تم لوگ؟ گاؤں میں تم لوگوں کا گزارا ہوگا؟چلے ہو گاؤں جانے...تم تو اتنا کرو کہ میونسپل کمشنر کے نام ایک درخواست لکھو... وارڈ میں اتنی گندگی ہو گئی ہے کہ... آخر ہم ٹیکس کس بات کا دیتے ہیں...؟‘
سبزی چھونکتی بڑی، ڈیڈ کا جوتا صاف کرتا چھوٹے اور جوتے کی کیچڑ سے کچ کچ ہوگئی فرش پر پوچھا لگاتی چھوٹی کی ٹھہری ہوی سانسیں چلنے لگیں۔سب نے بیک وقت ایک ساتھ راحت کی سانس کھینچی۔
ڈیڈ نے اپنے کمرے میں فولڈنگ ڈال ایک اور بستر لگانے کا حکم دیا تھا۔ گاؤں سے گجادھر چاچا آرہے تھے۔ ان کے آنے کی خبر پاکر ڈیڈ میں بے انتہا جوش بھر گیا تھا۔ یوں تو گاؤں سے اکثر کوئی نہ کوئی آتا ہی رہتا تھا۔ ڈیڈ نے پورے گاؤں والوں سے کہہ رکھا تھا، جب بھی کسی کو، کسی کام سے دہلی آنا پڑے، اسے’ شرما وِلا‘ کو چھوڑ کر کہیں اور رکنے ٹھہرنے کی ضرورت نہیں ہے۔اوپن ٹنڈر کی طرح اس کھلی دعوت کا فائدہ گاؤں والے خوب اٹھاتے تھے۔ کوئی کام کی تلاش میں، کوئی علاج کرانے کی غرض سے، کوئی قطب مینار،لال قلعہ د یکھنے...خواہ جس کسی غرض سے دہلی آتا ہو،ٹھہرتا تھا ’شرماولا‘ میں ہی۔ اور جتنے دن تک ٹھہرتا تھا، اس کی خاطر توجہ میں ’شرما ولا‘ کا ایک ایک فرد لگا رہتا تھا۔ ان کے کھانے پینے سے لے کر ہگنے موتنے تک پرتوجہ دینی پڑتی تھی۔
گجادھر چاچا کولے کر ڈیڈ زیادہ حساس تھے۔ ڈیڈ کی دانت کاٹی روٹی کھانے والے تھے۔ بچپن میں، ڈیڈ کے ساتھ اونچے اونچے، سفید چکنے پیڑوں پر چڑھ کر ؤیتا اور کھیتوں میں سے بھٹا چرانے والے صرف ایک و ہی بچے ہوئے تھے۔ڈیڈ آج بھی ان کئتوں کی سہرن پیدا کر دینے والی ترشی اور بھنے ہوئے بھٹوں کی نرم نرم گرمی اپنے دانتوں کی جڑوں میں محسوس کیا کرتے تھے۔باڑھ کا پانی اترنے کے بعد ندی میں پیلاٹینگرااور کالا کالا کینکڑا پکڑنے میں جو پورا کا پورا دن گذرتا تھا، اس کا بکھان کرتے ہوئے ڈیڈ اتنا جذباتی ہو اٹھتے تھے کہ آنکھوں کی کوروں سے پانی رسنے لگتا تھا۔
گجادھر چاچا دہلی آرہے تھے۔ وہی گجادھر چاچا، جو کبھی ٹرین پر نہیں چڑھے تھے۔ چڑھتے ہی نہیں تھے۔ کہتے، ’دو اِنچ کی پٹری پر چلے لے ٹرینوا...ایکر کا بھروسہ...‘ کہیں آنا جانا ہوتا تو بس وس سے ہی، ورنہ نہیں۔ پہلی بار ڈیڈ نے انہیں ٹانگ ٹونگ کر طوفان ایکسپریس میں بیٹھایا تھا اور دلی لے کر آئے تھے۔ گجادھر چاچا پورا سفر دم روکے ہوئے تھے۔ جب سہی سلامت دلی پہنچ گئے تو ایسا تاثران کے چہرے پر تھا جیسے غضب ہو گیا ہو۔لیکن چسکا بھی لگ گیا گجادھر چاچا کو۔ جب جی میں آتا، من کرتا ’تو پھنوا‘پر چڑھ جاتے۔ پھر ڈیڈ اور گجادھر چاچا، دونوں جب ملتے تو لگتا دنیا انکی ٹھوکروں پر آگئی ہو۔ پو را پورا دن قطب مینار، لال قلعہ، جامع مسجد،ہمایوں کا مقبرہ... نہ جانے کہاں کہاں گھمکڑی کرتے، چوکڑی بھرتے رہتے۔ آنے سے قبل گجادھر چاچا جب مطلع کرتے تو ڈیڈ کہتے’ ستوا لیتے اۂا ،ایہیجا لِٹّی چوکھالگاوے کے...‘
گجادھر چاچا ستو لے کر آتے تھے اور ڈیڈ پورے گھر کو ناچ نچا کر رکھ دیتے تھے۔ نہ جانے کہاں کہاں سے لِٹّی چوکھا کے لیے کنڈے کا انتظام کرنا پڑتا تھا۔
گجادھر چاچا جب تک رہتے، ڈیڈ ایکدم سے بدلے ہوئے رہتے۔ ان کا ایک ایک پل گجادھر چاچا کے نام منسوب ہوتا۔ دو دو بجے رات تک اور کبھی کبھی تو صبح ہو جایا کرتی ، لیکن گاؤں اور گاؤں کے لوگوں کی باتیں ختم نہیں ہوتی تھیں۔ گاؤں کی سڑک پکی ہوگئی ہے...مکھیا کے چناؤ میں گاؤں دو پھانک ہو گیا ہے... دلتوں نے غیر مزروعہ زمین کے پٹاکے لیے بلاک کا گھیراؤ کیا... نہ جانے کتنی باتیں، کوئی اور چھور نہیں ہوتی تھی۔اور آخر میں بات پھر وہیں آجاتی تھی، تڑ بنّے میں کھجور کے پیڑوں پر لٹکتی ہوئی تاڑی کی لبنی...ادھواڑ سے اس پر نشانہ لگانا...تیز پرویّا میں تاڑی کا چھر چھراکر گِرنا اور اسے چلّومیں بھر کر سڑ سڑ پینا...
لیکن تھے تو ڈیڈ کے لنگوٹیا یار ہی۔ بہت ساری یکسانیت رکھتے تھے۔ سب سے زیادہ تکلیف دہ ہوتا تھا، صبح صبح مِرانڈا کی دو لیٹری بوتل میں پانی بھرکر بس میں بیٹھاکر ان کو دور لے جانا۔ یہ ایک ایسا کام تھا کہ دن بھر طبیعت مچلاتی رہتی تھی۔دراصل گجادھر چاچا ٹائلٹ میں ’فریش‘ نہیں ہو پاتے تھے۔ انہیں بس کے ذریعہ دور کھلے میں ’جھاڑا‘ کے لیے لے جانا پڑتا تھا۔ وہ کھلے میں ہی صبح کے معمول سے فارغ ہو پاتے تھے۔ ظاہر سی بات تھی، اس نیکی کے لیے اکثر چھوٹے ہی مہّیا ہوا کرتا تھا۔خود کو ٹھیل ٹھال کر جاتا تھا، بھنبھناتا تھا، ’ایک کیا کم تھے جو یہ دوسرے بھی...‘
گجادھر چاچا آئے تو گھر میں ہلچل بڑھ گئی۔ ’کاہوچھوٹکا ببوا...کا ہو بڑکا ببوا...کا حال با تو ہرلوگن کے...‘ان کی زبان سن چھوٹی پورے منہ میں ساڑی کا پلّو ٹھونس ہنسی روکنے کی کوشش کرتی۔ سونو نقل اتارتا تو بڑی جھِڑکتی۔ بڑے بھی جھلاّتا۔ ڈیڈ جو ہیں نا...سوچنا چاہیے، گھر میں ایک بچہّ ہے...
سچاّئی یہ تھی کہ گھر میں اس وقت دو اور بچیّ تھے۔ رات کے بارہ بجے لوڈو کھیل رہے تھے۔ ڈیڈ نے پاسا پھینکا... چھّکا...ایک...دو...تین... چار...پانچ...اوؤر ہئی چھہ... مار دینی... چل گھر میں گھس جا... گوٹی پٹ جانے سے گجادھر چاچا کا منہ لٹک گیا تھا جب کہ ڈیڈ زور زور سے تالیاں پیٹ رہے تھے، ’اے...اے... گجوا... منھ دیکھ اپنا... کیئن لٹک گئل باہو...‘
اب باری گجادھر چاچاکی تھی۔ پاساپھینکاتو چار آیا۔ ایک... دو... تین... اوؤر ہئی مرنی چار...اتفاق سے ڈیڈ کی گوٹی بھی پٹ گئی۔ گجادھر چاچا تو جیسے اچھلنے کودنے لگے۔ ’آہو بڑکا ببوا...آہو چھوٹکا ببوا...تنی شیشا لے آوہو...بابو کے منھ دِکھاد...‘
بغل والے کمرے میں بڑے پھرکی کی طرح ناچ رہا تھا، ’یہ گھر ہے یا چڑیا گھر...؟ خود تو سوتے نہیں، دوسروں کا آرام بھی حرام کیے ہوئے ہیں...‘
نہیں رہا گیا اس سے۔ ڈیڈ کے کمرے میں پہنچا۔
’ڈیڈ...‘
دونوں حلق پھاڑ کر ہنس رہے تھے۔ ’اچھا ہوا تم آ گئے بڑے...‘ نہیں تھم رہی ہنسی کو تھامنے کی محض کوشش سی کرتے ہوئے ڈیڈ نے کہا، ’...دو کپ چائے کے لیے بڑی سے کہہ دو...اور تم، ابھی تک سوئے نہیں...؟تمہیں صبح کام پر نہیں جانا کیا؟‘ پھر ہنسی کا ابال۔ بڑے پھین کی طرح بہتا ہوا کمرے سے باہرنکلا، سارا غصہ بڑی پر نکلا،’انہیں چائے کیوں نہیں دے آتی...‘
بڑے کا منہ دیکھتے رہ جانے کے علاوہ بڑی کے پاس دوسرا کوئی چارہ نہیں تھا۔
ایک ہفتہ رہنے کے بعد گجادھر چاچا گاؤں لوٹ گئے تھے۔ پر ڈیڈ کے اندر نہ جانے کتنی توانائی بھر گئے تھے۔ اب انہیں موسم کی نرمی گرمی کی رتّی برابر بھی پرواہ نہیں رہ گئی تھی۔ ساری بندشوں، رکاوٹوں کو تہس نہس کر جس طرح بے لگام دریابہتا ہے، اسی طرح ڈیڈ بہہ رہے تھے۔
اس دن بڑے کا ماتھا ٹھنکا تھا۔ سگریٹ کی بو آرہی تھی۔اس نے نتھنوں کو سکوڑا، پھیلایا۔ سگریٹ کی بوہی تھی۔ ڈیڈ کے کمرے سے آرہی تھی۔اسے سمجھتے دیر نہیں لگی، ڈیڈ سگریٹ پی رہے ہیں... دل ہی دل میں کچھ فیصلہ کر وہ ڈیڈ کے کمرے میں پہنچا۔
’ڈیڈ...‘ کمرے میں دھواں اور اس کی کسیلی گندھ بھری ہوئی تھی۔
ڈیڈ نے ضد بھری نگاہوں سے اسے دیکھا تھا۔
’ہم لوگ تنگ آگئے ہیں ڈیڈ... آخر کیا چاہتے ہیں آپ...؟‘
’تم لوگ کیا چاہتے ہو...؟‘ ڈیڈ کی الٹ بانسی۔ لیکن بڑے مضطرب نہیں ہوا۔
’محلّے میں اور بھی بوڑھے ہیں...‘
’ہاں سچ مچ... وہ بوڑھے ہیں...‘
’ڈیڈ آپ...‘
’ٹھیک ہے...‘
اس رات سانس کی بیماری نے زور پکڑ لیا تھا۔ڈیڈ پوری رات نہیں سو سکے۔ پوری رات ایک ایک فرد، ایک ایک پیر پر کھڑا رہا۔ بڑی تیل گرم کر کرکے مالش کرتی رہی، چھوٹی اِنہیلر کی پچکاری دیتی رہی، بڑے پیٹھ دباتا رہا،چھوٹے چھاتی سہلاتا رہا، سانس لینے میں کافی دشواری... سونو گہری سانسیں چھوڑتا رہا... پلنگ سے نیچے پیر لٹکائے، دونوں ہاتھوں کو بستر پر ٹکائے، اکھڑی اکھڑی سانسوں کو پکڑنے کی کوشش کرتے رہے ڈیڈ...رات کے آخری پہر میں ڈیڈ کی آنکھ لگ گئی، پھر نہیں کھلی۔
اے پی شرما...انردھ پرساد شرما یعنی ڈیڈ نہیں رہے۔ نہیں رہے تو ’شرماولا‘ میں بہت ساری حرکتیں بھی نہیں رہیں۔ ڈیڈ کے سبب ایک ایک کی، جو جسمانی اور ذہنی مصروفیت بنی رہتی تھی، اس سے ایک ایک کو نجات پانے جیسا احساس ہونے لگا۔ ایک ٹھہراؤ...سکون جیسا کچھ محسوس ہونے لگا۔ سر پرسے کوئی وزنی سی چیز ہٹ جانے سا لگنے لگا۔ ذہن کو آرام کا سا گمان ہونے لگا۔ پرسکون، آرام دہ صبح اور اسی طرح کی رات۔ بڑے اور بڑی، چھوٹے اور چھوٹی اپنے اپنے کاموں میں، اپنی اپنی مصروفیت میں...
اس دن... اس وقت... بڑی کچن سے نکلی، چھوٹی اپنے کمرے سے... بڑے چھت پر سے بھاگا، چھوٹے برآمدہ سے...
سب ایک ساتھ ڈیڈ کے کمرے میں تھے۔
ڈیڈ کی آواز سنائی دی تھی۔
بڑے، میرا ہیٹ کہاں ہے؟
چھوٹی، ایک کپ چائے دینا۔
بڑی، جوشاندہ کا کیا ہوا؟
چھوٹے، میرا جوتا صاف ہوا کہ نہیں؟
ڈیڈ کا بستر ...ڈیڈ جس پر بیٹھے ہوتے تھے، خالی تھا۔ وہاں کوئی نہیں تھا۔ سب نے ایک دوسرے کو دیکھا، سب کی آنکھوں میں پانی بھرا ہوا تھا۔ بڑے دھم سے ڈیڈ کے بستر پر بیٹھ گیا۔ ہتھیلیوں سے چہرہ ڈھک کرپھپھک پڑا۔
’بہت تنگ کرتے ہیں بڑھؤ... ‘