کرفیو
خوفناک عفریت نے پھر زندگی کے بدن میں اپنے ناخن گاڑدیئے۔ زخموں سے خون ابلنے لگا۔ وہ سب وحشت زدہ جانوروں کی طرح سڑک پر نکل آئے۔ عمارتوں اورانسانوں کے اس جنگل میں غراتی پھرنے والی دیوہیکل جانوروں جیسی بسیں آگ اورپتھراؤ کے خوف سے جیسے غاروں میں جاچھپی تھیں۔ وہ سب بے بس ہوکراپنی اپنی پناہ گاہوں میں پہنچنے کے لیے بے چین ادھرادھر دوڑنے لگے۔ اس بھیڑ سے الگ تھلگ سنہرے بالوں والی خوب نوجوان عورت نے ان وحشت زدہ انسانوں کوحقارت سے دیکھا ۔اورایک خاص ادا سے بالوں کوجھٹکادے کربڑبڑائی’’ ’ سب جانور ہیں‘‘۔
خوف کا احساس اس کے وجود میں بھی دھیرے دھیرے اترتا جارہاتھا کہ وہ خود اپنے گھرکیسے پہنچے۔ اس کا گھر ٹھیک اسی علاقے میں تھا جہاں وہ عفریت پنجے گاڑے خون کی پیاس بجھارہاتھا۔
اچانک ہی ایک کار اس کے سامنے رکی۔ دروازہ کھلا اورمہذب قسم کے آفیسر نے شائستگی سے اس کی طرف مسکراکردیکھا۔ عورت کے اندر چھپی ہرنی نے چوکنا ہوکر اسے غور سے دیکھا ۔ وہ جانوروں جیسا نہیں تھا۔ شکاریوں جیسی سفاکی بھی اس میں نظرنہیں آرہی تھی ۔ بے اطمینانی کی فضا سے نکلنے کا واحد ذریعہ وہی کار تھی۔ ہرنی نے چھلانگ لگائی اور پنجرے کا دروازہ بند ہوگیا۔ آفیسر بے حد خاموش تھا ۔ وہ اپنے گھر کا راستہ بتانے لگی ۔
کارجھٹکے سے رکی۔ ایک خاکی وردی والے نے کار کے سامنے آکر کہا ’’اس علاقے میں سخت کرفیو لگادیاگیا ہے ۔ آپ آگے نہیں جاسکتے‘‘۔
’’کرفیو۔۔۔ ‘‘وہ کانپ گئی۔
’’گھر کیسے جائیں؟‘‘ اس نے گھبراکرپوچھا۔
خاکی وردی والے نے اسے عجیب نظروں سے گھورا۔
اب جب کہ عفریت نے پنجے گاڑدیئے ہیں۔ تومٹی‘ چونے اور گارے کی وہ منظم شکل باقی کہاں رہ گئی ہوگی جسے گھرکہاجاتا ہے۔ خاکی وردی والا واپس مڑگیا۔
قریبی ادھ کھلے ریستوران سے اس نے مختلف نمبر ڈائل کیے لیکن اس کا شوہر اسے کہیں نہ مل سکا۔ چوتھی بار اس نے نمبرڈائل کرنا چاہا تو آفیسر نے کریڈل پرہاتھ رکھ لائن کٹ کردی۔
’’کیا ہرج ہے‘ کرفیو ختم ہونے تک آپ میرے گھرچلیں‘‘۔ اس نے فون رکھ دیا اوراطمینان کی سانس لی ۔ وہ خود تنہا گھرنہیں جانا چاہتی تھی۔ ابھی چند دنوں پہلے ہی اس نے اپنی آنکھوں سے عفریت کوتباہی مچاتے دیکھاتھا ‘دہشت کی فضا تھی۔ شور‘چیخیں ‘ لاٹھیاں ‘ پتھراؤ‘ آگ ‘ دُھواں ‘سیٹیاں‘ لاٹھی چارج‘ جوتوں کی دھمک‘ گاڑیوں کا شور ‘ آنسو گیس برساتے شل‘ دستک‘ گرفتاریاں‘ فرار کی کوشش‘ گولی کے دھماکے ‘لال لال خون ۔!!
دور کہیں گولی چلنے کی آواز آئی۔ اس نے فون رکھ دیا اور گاڑی میں آبیٹھی۔ اسے مہذب انسانوں سے کبھی خوف نہیں ہوتاتھا۔ یہ آفیسر تو بہت شائستہ تھا۔ شادی سے پہلے اس کے کئی مرد دوست تھے۔ ان کے ساتھ وہ کبھی پکنگ پربھی چلی تھی۔ ٹھنڈی بیئر کی چسکیاں اور غیر ملکی سگریٹ کے کش بھی لگالیتی ۔ڈانس بھی کرلیتی تھی لیکن ہوش میں رہ کر۔ اس نے اپنی شخصیت کے گرد ایک خول چڑھارکھاتھا۔ لیکن شائستہ مردوں کے ساتھ وہ اس خول سے باہر آجاتی تھی ۔ اسے ایسے مرد پسند نہیں تھے جواپنی مردانگی کا اشتہار ہوتے ہیں اور ہر جگہ اپنی صلاحیتوں کا ڈھول پیٹتے ہیں۔ عورت کودیکھتے ہی ایک دم جانوربن جانے والے مردوں سے بھی اسے نفر ت تھی۔ دھیرے دھیرے اثر کرنے والی شخصیتیں اسے متاثرکرتیں۔ غیرمحسوس طریقے سے پیار کیاجائے تو اسے کبھی برا نہیں لگتا۔ ناچتے ناچتے جب مدہوشی کی کیفیت طاری ہوگئی اورکسی نے کمر پرگرفت مضبوط کردی ۔کبھی قدم لڑکھڑاگئے۔ کبھی کوئی چہرہ جھکا تواس نے اس کا برا نہیں ماناتھا۔ جانوروں جیسے انسانوں سے اسے خوف ہوتاتھا ۔ وہ خول میں جاچھپتی۔ وہ جانوراسے زخمی کردیں گے اور اس کی شخصیت کا بھرم رفتہ رفتہ ختم ہوجائے گا اور وہ بے قیمت اورکھوکھلی ہوجائے گی۔
جوان ہوتے ہی اس کی طرف اٹھنے والی نگاہوں نے اسے خوبصورت بدن کی قدروقیمت سے آگاہ کردیاتھا۔ اس کی ساری دِلکشی اور جاذبیت اس کے بدن میں چھپی ہوئی تھی۔ اپنے جسم کی خوبصورتی اور اہمیت سے آگہی نے اسے دوسروں کو ترسانا اورتڑپانا سکھادیاتھا۔ ایک بہت ہی شریر ہرنی اس کے اندر آچھپی تھی جو لمحے بھر کوشکاری کونظرآتی اسے لبھاتی‘ ترساتی اورجب وہ نشانہ جماتا وہ قلانچیں بھرتی ہوئی ۔یہ جا وہ جا۔ شکاری دیوانہ وار سارا جنگل چھانتا پھرتا۔
کار رکی۔ ویل فرنشڈ فلیٹ۔ جدید طرز کا فرنیچر۔ قیمتی قالین۔ سٹریو ٹائپ ٹیپ ریکاڈر۔ کیسیٹس کا ڈھیر !
آفیسر نے ٹیپ کا بٹن دبایا۔ سارے کمرے میں دھیمی دھیمی موسیقی کی لہریں پھیلنے لگیں ۔اس نے ریشمی بالوں کوجھٹکادیا جیسے وہ فلیٹ کی سجاوٹ سے بالکل متاثر نہ ہوئی ہو۔ وہ خول سے باہر آگئی۔ کوئی خطرہ نہیں تھا۔ آفیسر کے اندر کوئی جانور نہیں تھا۔ میز پرپڑے رسائل سے ایک رسالہ اٹھاکر وہ سوچنے لگی۔ کرفیو اٹھنے تک وہ آفیسر کے خاندان کے مہذب افراد کے ساتھ رمی کھیل کر وقت گزارے گی ۔ لیکن اندر سے آفیسر آیا تواس کے ہاتھ میں تھمی ٹرے دیکھ کروہ مایوس ہوگئی۔ اس کاایک ہی مطلب تھا کہ اس فلیٹ میں آفیسر تنہا ہے۔
خوف کی ایک لہر اس کے وجود میں دوڑ ی۔
’’اونہہ‘‘اس نے لاپرواہی تراشیدہ بال جھٹکے۔
’’سارے ملازم اپنے اپنے گھرلوٹ گئے۔ ان کے گھرکرفیو زدہ علاقے میں ہیں‘‘۔
’’کرفیو‘‘ وہ کانپ گئی۔ اطمینان کی لہروں میں وحشت کا تلاطم اٹھا۔ باربار تباہی مچانے والے اس عفریت کو ختم کرنے کے بجائے لوگوں کوقید کرکے ماحول کی زندگی چھین لی جاتی ہے۔
چائے کی چسکیوں کے ساتھ گفتگو شروع ہوئی۔ دونوں آرٹ‘فلسفہ اور بین الاقوامی سیاست پربحث کرکے خود کوانٹلکچول ثابت کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ لیکن دونوں کے پاس صرف لفظ ہی لفظ تھے۔ معنوں سے محروم۔ جلد ہی دونوں نے محسوس کرلیا کہ جو لفظ بن رہے ہیں وہ ماحول اور ذہنی کیفیت سے ہم آہنگ نہیں ہورہے ہیں ‘آفیسر کی نظریں اس کے چہرے اور گردن سے نیچے آرکتی ہیں۔ وقفے وقفے سے وہ اپنے شوہر کوفو ن کرتی رہی اور آفیسر کویہ احساس دلاتی رہی کہ وہ شادی شدہ ہے۔ اپنے شوہر کاخیال رکھتی ہے اور یہ کہ اسے گھرپہنچنے کی عجلت ہے۔ ٹیلیفون کے جواب میں اسے جو اطلاعیں ملتی رہیں ‘وہ یہی تھیں کہ پورے شہر میں کرفیو مسلط کردیاگیا ہے ۔وہ محصور ہوگئی ہے۔ ریڑھ کی ہڈی پرکنڈلی مارے بیٹھا ہوا خوف سارے وجود میں پھیلنے لگا۔
کیسٹ بدلتے رہے۔ مغربی ومشرقی موسیقی کی آوازیں بے صدا ہوگئیں۔کیسٹ ختم ہوگئے۔ الفاظ ختم ہوگئے ۔ سرخ آنکھیں جھکنے لگیں۔ بدن بوجھل ہوکردکھنے لگے۔ دونوں کے درمیان شیشے کی دیوار ابھی تک صحیح سالم تھی ۔ ٹیپ ریکاڈر بند ہوا توسناٹا بولنے لگا ۔ایک طویل جماہی ۔چٹختا ہوا بدن۔
’’آپ چاہیں تو بیڈروم میں آرام کرسکتی ہیں ‘‘۔
بیڈروم تک وہ ساتھ آیا۔ کمرے میں آتے ہی وہ انگڑائی لینے کی شدید خواہش نہ دباسکی۔ پھر وہ بستر پر بیٹھ کردن بھر چست کپڑوں میں کسے جسم کو آزاد چھوڑنے کی خواہش چاہتے ہوئے بھی پوری نہ کرسکی۔ نیند سے بوجھل ہوجانے کے بعداس کا بدن صرف ہلکی پھلکی نائٹی کابوجھ ہی سہارسکتاتھا۔ اسے نیندنہیں آئی۔ بدن پرمنو ں بوجھ لدا ہوا سا لگ رہاتھا۔ بیڈروم کی کھڑکی کھول کروہ باہرجھانکنے لگی۔ اندھیرا پھیل گیاتھا۔ سڑک ویران تھی۔ اسٹریٹ لائیٹ کی روشنی میں کچھ دورموڑ پرکھڑی پولیس کی گاڑیاں صاف نظرآرہی تھیں۔ ایک شخص نمودار ہوا ۔ پولیس کے جوان نے روکا۔ شاید کرفیو پاس پوچھ رہاتھا۔ وہ شخص گھگیانے لگا۔ خوشامدیں کرنے لگا۔ جوان اسے رائفل کے کندے سے دھکادے کر گاڑی کی طرف ڈھکیلنے لگا۔
اچانک ہی وہ آدمی پلٹا اور تیزی سے بھاگنے لگا۔ جوان نے رائفل سیدھی کی اور گولی چلادی۔ وہ آدمی تناور درخت کی طرح گرا۔ وہ کانپ گئی ۔ اس نے جھر جھری سی لی اورکھڑکی بند کردی ۔نیندکاکوسوں پتہ نہ تھا۔ تکیئے سے کمر لگا کروہ بے دم ہوکر لیٹ گئی۔ بسترمیں اجنبی سی مردانہ بورچی ہوئی تھی۔
دروازے پر آہٹ ہوئی۔ وہی تھا۔
’’نیندنہیں آرہی ہے کیا؟‘‘
’’ہاں ابھی گولی چلی ہے‘‘
’’یہ سب توچلتا ہی رہے گا‘‘ اس نے لاپرواہی سے کہا ۔’’آپ چاہیں تو میں اپنا سلیپنگ گاؤن دے سکتا ہوں‘‘۔
’’نہیں ۔۔۔بس ایسے ہی ٹھیک ہے ‘‘وہ سنبھل کر بیٹھ گئی۔ وہ وہیں صوفے پربیٹھ گیا۔
’’آپ کی شادی ہوئے کتنا عرصہ ہوا؟‘‘
’’دوسال‘‘
’’اوہ۔۔۔۔۔۔لگتا نہیں۔ بائی دی وےBy the wayآپ کی عمر کیا ہوگی۔ اٹھارہ سال سے زیادہ کی نہیں لگتیں‘‘۔
اسے لگا جیسے وہ سرکس کی نیم برہنہ لڑکی ہے جسے دائرہ نماگھومتے ہوئے تختے پر سختی سے باندھ دیاگیا ہے۔ وہ دم سادھے رہی۔ آنکھوں پرپٹی باندھے ہوئے مرد نے سنسنا تا ہوا خنجر پھینکاتھا۔
’’نہیں ۔بائیس سال کی ہوگئی ہوں‘‘وہ بال بال بچی۔ خنجرتختے میں دھنس گیا۔
’’اوہ ۔۔۔نو۔۔۔بالکل نہیں لگتا ۔آپ شادی شدہ ہیں ۔اس کابھی یقین کرنے کوجی نہیں چاہتا‘‘۔
وہ تراشیدہ زلفیں جھٹک کرمسکرادی توآنچل ڈھلک گیا۔
’’اگرآپ اجازت دیں تو کہوں کہ آپ کا بدن بیحد خوبصورت ہے اور آپ اپنے جسم کوایکسپوز کرنے کا ڈھنگ جانتی ہیں۔ یہ بھی ایک آرٹ ہے۔ ہے نا‘‘
وہ خامو ش ہوگئی۔۔۔اس نے خود کوخول میں سمیٹنے کی کوشش کی لیکن وہ خول توکبھی کا ٹوٹ چکاتھا ۔
شیشے کی دیوار پرایک کنکرکھن سے لگا۔ شیشہ ریزہ ریزہ ہوگیا۔ کرچیں ایک دوسرے سے جڑی رہیں بکھری نہیں لیکن دیوار کے اس پاس اس کی شخصیت دھندلاگئی۔ آفیسر نے ایک دھکے سے شیشے کی دیوار گرادی اورکرچوں کے ڈھیر پرپیر رکھتا ہوا اس کے قریب آگیا ۔ کمر کے موڑ سے بہت نیچے باندھی گئی ساڑھی اوربغیر آستین کے چست بلاؤز سے جھانکتے ہوئے بدن کو گھورتے ہوئے اس نے کہا۔’’کون سا شمپو استعمال کرتی ہیں آپ‘‘ریشمی بالوں کواس نے چھولیا۔ دوسرا خنجر۔
’’پلیز‘‘ اس نے احتجاج کیا۔
’’آپ جیسی عورت اس لیے نہیں بنائی جاتی کہ اپنے حسن کو سینت سینت کررکھے۔ آپ یہ بہت اچھاکرتی ہیں کہ اپنے حسن کو ضیاء پاشیوں کو قید نہیں کرتیں ‘‘آفیسر کی نظریں اس کے بلاؤز کے گریبان سے ابلتے ہوئے بدن کے جھاگ پرجم گئیں۔ زندگی میں پہلی بار اسے محسوس ہوا کہ وہ بہت ہی ناکافی لباس پہنتی ہے۔ شکاری کولبھاکرقلانچیں بھرنے والی ہرنی کے فرار کی راہیں مسدود ہوتی جارہی ہیں۔
خنجروں کی بوچھار۔۔۔ ہر خنجر پروہ کانپ جاتی ۔پھر جلد ہی وہ جان گئی کہ وہ صرف خنجر پھینک رہا ہے ۔ اس کا مقصد جسم میں خنجر پیوست کرنا نہیں بلکہ نشانہ بازی میں اپنی مہارت کی دھاک جمانا ہے۔
اچانک ہی آفیسر نے دونوں کندھوں پرہاتھ رکھ کراسے چومنا چاہا۔
’’یہ کیا ؟ ’’اس نے غصیلی آواز میں کسمساکرکہا۔
’’کچھ بھی تونہیں ۔آپ نے یقیناًعورت کی عصمت وعفت کے متعلق لکھی گئی عجیب وغریب غیرفطری کہانیاں نہیں پڑھی ہوں گی ‘‘
’’اوہ پلیز‘‘ اس نے منت کی۔
’’دیکھئے سمجھنے کی کوشش کیجئے۔ اس ٹینشن کوتوڑنا بہت ضروری ہے جو ہم دونوں کے بیچ ہے۔ جب تک یہ تناؤباقی رہے گا ہم دونوں ہی سکون سے سونہیں سکیں گے۔ ہم دونوں ٹوٹ جائیں گے ۔کم از کم میں ٹوٹنا نہیں چاہتا۔ اس بے معنی رات کو معنی پہنانا چاہتا ہوں۔ خوف ودہشت کے ہیجانی تناؤ سے ذہن کونجات دلانے کی یہی بہترصورت ہے کہ آپ میری بات مان لیں ۔ معمولی لڑکیوں کی طرح بے قوف نہ بنیئے۔ اورپھر کیا فرق پڑتا ہے ۔آپ توشادی شدہ ہیں۔‘‘
’’شٹ اپ ‘‘اس نے ہاتھ جھٹک دیئے اورکھڑی ہوگئی۔
’’آپ کی مرضی ‘میں جبرنہیں کرنا چاہتا ‘‘۔
تب ہی فضا میں ایک نسوانی چیخ گونجی۔ کھڑکی کھول کرباہرجھانکنے کی اس میں ہمت نہ ہوئی۔
خنجرختم ہوگئے۔ تختہ گھومتے گھومتے رک گیا ۔لڑکی تختے سے اترآئی۔ تختے پرخنجروں سے بنا اس کا سراپا باقی رہ گیاتھا۔ لڑکی نے اطمینان کی سانس لی ۔
’’وہ باہر جانے کومڑی توآفیسر نے شائستگی سے کہا۔
’’باہرکرفیو ہے ۔رات بہت ہوگئی ہے۔ کہاں جائیں گی آپ‘‘
اس نے اپنا لباس برابر کرتے ہوئے آفیسر کی طرف حقارت سے دیکھا اوربنا کوئی جواب دیئے گیٹ تک آگئی اسے محسوس ہوا جیسے وہ تار پر چلنے والی لڑکی ہے جس کا توازن برقراررکھنا بے حد دشوار ہے۔ ہمت کرکے وہ سڑک پر آگئی۔
’’اے کون ہے چلواندر!
اندھیرے میں گرج دار آواز گونجی۔ اس کا جی چاہا کہ دوڑتے ہوئے پولیس کے جوانوں تک پہنچ جائے اور اس آفیسر کی عزت کے پرخچے اڑادے۔ اس کے اندر چھپی ہوئی ہرنی نے دیکھا۔ اس عفریت نے بہت سی ہرنیوں کا خون پیا ہے۔ اوراس عفریت کوختم کرنے کے بہانے بہت سے محافظوں نے بھیڑیوں کی طرح ہرنیوں کا شکار کیاہے۔
وہاں بہت سے بھیڑیئے دانت نکوسے کھڑے تھے۔ ایسے میں وہ اس کی بوٹیاں نوچ کر گولی مارسکتے ہیں۔ کرفیو کی خلاف ورزی کرنے پر گولی ماردینے کا حکم ہے۔ سارا الزام اسی عفریت پرتھوپاجاسکتا ہے۔
’’اے ۔سنا نہیں۔۔۔ایک قدم بھی آگے بڑھایا تو گولی مار دی جائے گی ‘‘۔
موت!
اس کی نظروں میں وہ نوجوان گھوم گیا جسے گولی مار کے گھسیٹتے ہوئے وین میں ڈال دیاگیاتھا۔
وہ ویسے ہی کھڑی رہی جیسے چوراہے پر نصب کردہ کوئی بت ہو۔ چند لمحے گذرے۔ ایک دھماکہ ہوا۔ اس کے پیروں کے قریب دھول اڑی۔ خوف کے سانپ نے اسے ڈس لیا۔ اس گولی نے فرار کی تمام راہیں مسدود کردی تھیں۔ ہرنی بے بس ہوکر مڑی۔ تار پرچلنے والی لڑکی نے توازن کھودیا اور جال پرگری۔
باہر خوف ودہشت کی فضا تھی۔ بربریت اورظلم تھا ۔ اس کرفیو کوتوڑنے کی اس میں ہمت کہاں۔ ہاں وہ اپنے جسم کا کرفیو توڑسکتی ہے ۔ ایک راستہ تو اسے چننا ہی ہے۔
جھولے پرلٹکی ہوئی لڑکی جھولتی رہی۔ قریب ہی وہ مرد ہاتھ پھیلائے اسے تھامنے کی کوشش کررہاتھا۔ جھولے پرلٹکتی ہوئی لڑکی نے سوچا کیا فرق پڑتا ہے۔ پرسکون پانی پرپتھرپھینکنے سے لمحے بھر کولہریں بنتی ہیں۔ طوفان تو نہیں آتا ۔پھرپتہ بھی نہیں چلتا کہ پتھرکس جگہ پھینکاگیاتھا۔ پتھر توگہرائی میں کہیں کھوجاتا ہے۔
جھولے پر لٹکتی ہوئی لڑکی نے مرد کے ہاتھ تھام لیے اورجھولا چھوڑکر لٹک گئی ۔مرد فاتحانہ انداز میں پینگیں لینے لگا۔
جسم پرلگا کرفیو اٹھ گیا۔ آگ۔ فائربریگیڈ کی گھٹنیاں پائپوں سے ابلتا ہواپانی۔ دھواں۔ خون۔پھرسکون!!