افغانستان: چین کے لیے نئے مواقع کی سرزمین یا مسائل کی آماجگاہ

ترجمہ و تلخیص:  شعبہ ادارت الف یار

(چین افغان تعلقات کے حوالے سے بین الاقوامی تجزیہ نگاروں میں عمومی رجحان یہی پایا جاتا ہے کہ چین معاشی مواقع کی تلاش میں افغانستان سے تعلقات استوار کررہاہے اور افغانستان کی زمینوں میں موجود بیش بہا معدنیات پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ ٹی آر ٹی سے وابستہ صحافی روپرٹ اسٹون کی رائے اس کے برعکس ہے ، ان کے خیال میں چین کے لیے مواقع سے زیادہ مشکلات افغانستان میں موجود ہیں اور وہ ان مشکلات کو حل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے ۔   آپ اس رائے کو تصویر کا دوسرا رخ قرار دے سکتے ہیں  ۔ادارہ)

جولائی میں طالبان کے نمائندوں نے چین کے وزیر خارجہ وانگ یی سے شمالی چینی شہر تیانجن میں ملاقات کی۔ یہ ملاقات ، دونوں فریقوں کے درمیان اب تک کی سب سے زیادہ عوامی اور اعلیٰ سطحی ملاقات ہے جو یہ ظاہر کرتی دکھائی دے رہی ہے کہ بیجنگ افغانستان میں اپنا کردار بڑھا رہا ہے۔ ان ملاقاتوں سے عمومی طور پر یہ خیال کیا جارہا ہے کہ  چین افغانستان میں بڑی سرمایہ کاری کے ذریعے اپنا اثر و رسوخ بڑھا کر امریکی انخلاء سے فائدہ اٹھانے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔

لیکن درحقیقت اس کا امکان بہت کم  ہے۔ بیجنگ کے لیے ، افغانستان نئے مواقع کی تلاش کی بجائے مسائل کی آماج گاہ ثابت ہورہا ہے۔  تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بیجنگ واضح طور پر امریکہ کی روانگی کی رفتار سے ناخوش ہے اور بار بار واشنگٹن کی "جلد بازی" پر تنقید کرتا ہے، جس کے باعث ایک ایسا خلا پیدا ہوگیا ہے جسے پرُ کرنا چین کے لیے کسی طور آسان نہیں ہے ۔

دراصل افغانستان میں چین کے لیے حاصل کرنے کو بہت کم جبکہ کھونے کے لیے بہت کچھ نظر آتا ہے۔ تباہ شدہ انفراسٹرکچر ، انسانی ترقی کی انتہائی نچلی سطح اور غیر یقینی سیاسی مستقبل والے غریب ، جنگ زدہ ملک میں کوئی بڑی سرمایہ کاری ناممکن ہے۔ چین کی فوری منصوبہ بندی سیکورٹی کی صورتحال کو بہتر بنانے اور عسکریت پسندوں کے خطرات کو دبانے کے لیے کام کرنے کی ہے۔ افغانستان میں تشدد میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہورہا ہے کیونکہ امریکہ نے اپنا انخلا مکمل کرلیاہے اور ملک کو منظم انداز میں کنٹرول کرنے کی کوئی حکمت عملی ابھی تک نظر نہیں آرہی۔دوسری طرف  طالبان نےمرکز میں کنٹرول حاصل کرنے کے بعد  بجلی کی سی سرعت سے صوبوں کا کنٹرول سنبھالنا  شروع کردیا ہے ، صرف گزشتہ ہفتے میں کئی صوبائی مراکز پر قبضہ کر لیا ہے، بشمول چین کی سرحد پر دارالحکومت بدخشاں۔

چین کے پروگرام کے ڈائریکٹر یون سن نے کہا ، ’’پچھلے بیس سالوں میں امریکہ کےلیے افغانستان کو ایک  دلدل  کے طور پر  دیکھنے کے بعد ، چین کی فوری حکمت عملی یہ ہوگی کہ ملک میں ممکنہ سیکیورٹی بحران کے پھیلنے والے اثرات کو کیسے روکا جائے۔‘‘

کم سے کم معاشی مشغولیت:

افغانستان کے ساتھ چین کی اقتصادی سرگرمیاںماضی میں انتہائی محدود رہی ہیں۔ چین زیادہ تر پاکستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ زیادہ تجارت کرتا ہے۔ بروکنگز انسٹی ٹیوشن کی 2020 کی ایک رپورٹ کے مطابق ، مجموعی طور پر ، افغانستان میں چین کی معاشی سرمایہ کاری اس کے پوٹینشل سے بہت کم ہے۔انسٹی ٹیوٹ کے مطابق افغانستان میں ’بے پناہ عدم تحفظ‘ کسی بھی سرمایہ کاری کے لیے سازگار نہیں ہے۔

افغانستان چین کے مشہور زمانہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کا حصہ  بھی نہیں ہے ، جو اس کے پڑوسی ممالک سے گزرتا ہے۔مزید یہ کہ بی آر آئی دنیا بھر میں سست روی کا شکار ہے کیونکہ چین کورونا وائرس وبائی امراض اور دیگر مسائل کا سامنا کر رہا ہے۔ سرمایہ کاری کی سطحیں گر رہی ہیں ، جس سے یہ امکان کم ہے کہ بیجنگ زیادہ خطرے والے ممالک میں اس منصوبے پر پیش رفت کرسکے گا۔

اگرچہ افغانستان اپنے پڑوسی ملکوں کے درمیان زمینی پل کے طور پر کام کر سکتا ہے ، لیکن سیکورٹی کی صورت حال نے ملک بھر میں ٹرانسپورٹ سے متعلق منصوبوں کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔ چین کے قریب ترین افغانستان کی مشرقی واخان راہداری میں ایک بہت ہی مختصر ، تقریباً ناقابل رسائی زمینی سرحد ہے ، کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ چینی حکومت اس حصے میں ایک سڑک بنا کر افغانستان کو بی آر آئی میں شامل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے لیکن فی الوقت یہ ایک دشوار اور مشکل کام دکھائی دیتا ہے ۔چین کے ایک سابق سفیر کے مطابق واخان کے راستے چین جانے والا راستہ ’پرکشش آپشن نہیں‘ ہے۔

مزید خبر یہ بھی ہے کہ یہ کہ چین نے حالات بہتر ہونے تک اپنے  شہریوں کو افغانستان سے انخلا کا حکم دیا ہے ، اس حکم سے بھی یہ خدشات پیدا ہوئے ہیں کہ چین افغانستان میں سرمایہ کاری میں زیادہ دلچسپی نہیں لے رہا ۔

چین نے کئی بار چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کو افغانستان تک بڑھانے کا عزم ظاہر کیا ہے ، لیکن عملاً اس منصوبے پر بھی تاحال کوئی  عملی پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی۔ البتہ کان کنی کے شعبے میں کچھ پیش رفت نظر آئی ہے اورچینی کمپنیاں تانبے کی کان کے لیے مراعات حاصل کر چکی ہیں ۔تاہم اس شعبے میں بھی سیکورٹی کے خدشات نظر آتے ہیں۔ افغانستان کے کان کنی کے شعبے کے ایک محقق اور تجزیہ کار جاوید نورانی کے مطابق ، اس وقت تک کوئی پیش رفت نہیں ہوگی جب تک کہ سیکورٹی اور سیاسی صورتحال مستحکم نہ ہو جائے ، جس میں برسوں لگ سکتے ہیں۔اس ضمن میں بیجنگ کو دوسرے ممالک کے مقابلے کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ بھارت افغانستان میں لوہے کی کان کنی میں دلچسپی رکھتا ہے جبکہ  ایک آسٹریلوی کمپنی کو حال ہی میں ایک وسیع معاہدے کے ذریعے افغانستان کی معدنیات تک وسیع رسائی دی گئی ہے۔

مجموعی طور پر یہ تبصرہ کیا جاسکتا ہےکہ چین کے لے افغانستان میں کاروبار، کان کنی یا تجارت کے مواقع انتہائی محدود ہیں ، جب تک امن نہیں ہوجاتا، افغانستان میں اس طرح کا کوئی بھی منصوبہ شروع کرنا چین کے لیے سردردی کا باعث ہی ہوگا۔

چین اور افغانستان کے درمیان سیکورٹی کے مسائل:

چین نے طالبان سے کہا ہے کہ وہ ان عسکریت پسندوں کی طرف سے لاحق خطرے کو لگام دیں جو ممکنہ طور پر افغانستان سے سنکیانگ میں داخل ہوکر چین کے لیے مسائل پیدا کرسکتےہیں۔ چینی وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ہمیں امید ہے کہ افغان طالبان تمام دہشت گرد تنظیموں کی کوئی حمایت نہیں کرے گا۔طالبان کے سیکورٹی تعاون کے بدلے میں چین افغانستان پر معاشی نوازشات کر سکتا ہے۔ چنانچہ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ طالبان سرمایہ کاری کے قابل ماحول کو فروغ دینے کے لیے اپنی کوششیں کریں گے۔

طالبان  حکومت سے  توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ چین کی طرف سے مسلم ایغور برادری کے ساتھ مبینہ بدسلوکی پر اعتراض کرے گی لیکن طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے میڈیا کے اس طرح کے استفسارات کا جواب دینے سے اب تک انکار کیا ہے گویا وہ چین کے ساتھ تعلقات کو اہمیت دے رہے ہیں اور کسی بھی تنقید سے بچنا چاہتے ہیں۔ اس معاملے پر طالبان کی خاموشی پاکستان اور سعودی عرب سمیت متعدد مسلم ممالک کی طرح  مشترکہ ہے ، جو ایک ایسے ملک پر تنقید سے گریز کرتے ہیں جو تیزی سےان کا اہم اقتصادی اور سیکورٹی پارٹنر بن چکا ہے۔

تاہم ، دہشت گردی کا خطرہ اب کافی زیادہ ہے۔ ماضی میں القاعدہ اور داعش جیسے گروپ اس حوالے سے چین پر تنقید کو ایک پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کرتے رہے ہیں۔اب ان گروہوں کے تعلقات طالبان کے ساتھ کچھ اچھے نہیں ہیں اور اس بات کا خطرہ ہے کہ وہ افغانستان میں بدامنی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسے گروہوں کو منظم کرنے کی کوشش کرسکتےہیں ۔ ان گروہوں کو روکنا خود طالبان یا اس کے ساتھ ملک کر کام کرنے والے چین  کے لیے ایک بڑا چیلنج بن کر ابھر سکتا ہے۔

افغانستان میں ان گروہوں کی موجودگی ممکنہ طور پر پڑوسی ممالک میں چینی مفادات کے لیےبھی خطرہ ہیں ، جیسے پاکستان یا وسطی ایشیائی ممالک جہاں چین کی اہم سرمایہ کاری ہے ۔پاکستان اور چین کی مثالی دوستی کو پاکستان میں ٹی ٹی پی سےخطرات لاحق ہیں، اگرچہ طالبان نے پاکستانی ٹی ٹی پی سے کسی بھی قسم کے رابطہ سے انکار کیا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ماضی میں وہ ان ہی سے بیعت تھے۔

چنانچہ چین اور طالبان کے مابین معاہدے اضطراری اور عارضی ہیں ، نہ کہ ابھرتے ہوئے ’خصوصی تعلقات‘ کی علامت۔ دوسرے الفاظ میں افغانستان بیجنگ کے لیے موقع کی سنہری زمین نہیں ہے بلکہ پیچیدہ مسائل کا گڑھ ہے ۔

(روپرٹ اسٹون استنبول میں مقیم ایک آزاد صحافی ہیں جو جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ پر کام کر تے ہیں)