چھڑا پہلے پہل جب ساز ہستی

چھڑا پہلے پہل جب ساز ہستی
تو ہر پردے نے دی آواز ہستی


خیال یار تیرے صدقے جاؤں
ترے دم سے ہے سوز و ساز ہستی


میں مرنے کے لیے پیدا ہوا ہوں
مرا انجام ہے آغاز ہستی


سکون کائنات دل بقا ہے
اجل اک جنبش پرواز ہستی


مری خاک سحر کا ذرہ ذرہ
ہے بیدمؔ مخزن صد راز ہستی