چیونٹیو ں کی طرح مت چیخو
افسانے کے ان کرداروں سے ملنے اور ان کی دنیا میں داخل ہونے سے پہلے یہ جان لیجئے کہ چیونٹیوں کے چیخنے چلانے اور رونے کی آوازیں کوئی نہیں سنتا، بس وہ کچلی جاتی ہیں۔ تماشاگاہ میں بھیڑ ہو، شور ہو تو سچی آوازیں گم ہوجاتی ہیں۔ اور اگر لوگوں کی تقدیر کچھ دوسرے لوگوں کے ہاتھ میں ہو تو فیصلے تبدیل اور دورانیے سمٹ جاتے ہیں۔
یہ افسانہ دو بھائیوں کا ہے جن کے کوئی نام نہیں )کیوں کہ ان کے نام کچھ بھی ہوسکتے ہیں) جس سلگتے دن کی کوئی ٹھنڈی رات نہیں تھی، اس روز دھند میں لپٹی صبح وہ دونوں گھر سے ساتھ نکلے۔ بس اڈے تک ساتھ آئے۔ اس نے چھوٹے کو گلے لگا کر رخصت کیا۔ گھر سے نکلتے ہوے ماں سے بھی گرم جوشی سے ملا تھا۔ تب ماں نے کہا تھا۔
’’انٹرویو دینے یہ جارہا ہے اور رخصت تو ہورہا ہے؟‘‘
’’ہر جانے والے کو ایسے ہی جانا چاہیے‘‘۔
یہ کہتے ہوے اس کا دھیان کہیں اور تھا۔ اس نے لمحہ بھر کو سوچا کہ ماں کو بتادے کہ وہ بھی جارہا ہے، مگر خاموش رہا۔ اسے معلوم تھاکہ چھوٹا شام تک واپس آجائے گا۔ اس کی اپنی واپسی تو سوالیہ نشان کی طرح ہے۔ وہ اڈے پر بس کی روانگی تک موجود رہا۔ جاتے ہوے اس نے شیشے کے پار بیٹھے چھوٹے کو نظر بھر کے دیکھا۔ چھوٹے نے بھی اندر سے ہاتھ ہلایا، وہ اس بات سے واقف نہیں تھا کہ بڑا بھی شہر آنے والا ہے۔ وہ یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ بڑے کے ذہن میں خیالات کے پہاڑ کیسی کیلوں کی طرح ارادوں کی زمین میں گڑھے ہوے ہیں۔
وہ پیدل ہی بڑی شارع کی طرف چل دیا جہاں ایک سفید ہائی روف کھڑی ہوئی تھی۔ ہائی روف میں موجود آدمیوں نے گرم جوشی سے ہاتھ ملایا اور اسے لے کر روانہ ہوگئے۔ دراز قد گندمی رنگت والے شخص( اس شخص کا بھی کوئی نام نہیں، کیوں کہ اسے بھی کسی نام کی ضرورت نہیں) نے اس سے کہا۔
’’اپنا موبائل فون مجھے دے دو۔ اب تمہیں اس کی ضرورت نہیں ہے‘‘۔
بڑے نے کوئی سوال کیے بغیر اپنا موبائل فون اس کی طرف بڑھادیا ۔ شفق پوری طرح نمودار نہیں ہوئی تھی۔ سڑک صبح ہونے سے ذرا پہلے کے اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی۔ ہائی روف دور ہوتے ہوے اسی ملگجے اندھیرے میں گم ہوگئی۔ اگلے تیس چالیس گھنٹوں میں اسے بہت سی منزلیں سر کرنی تھیں۔ کچھ منزلیں وہ پہلے بھی سرکرچکا تھا، جس میں حس اور بے حسی کے درمیان باریک سی لکیر کو مٹانے کی مشق بھی شامل تھی۔ اب اسے آنے والی منزلوں کے مرحلوں کو سیکھنا تھا۔ عمل کا ردعمل اور نتیجے میں فیصلے کی طاقت کے تجربوں سے گزرنا تھا۔ جہاں اسے جذبۂ شوقِ وصال اور عقل سے ماوراء جذبۂ جنونِ دل کی تکمیلیت کو روح میں اتارنا تھا۔ اس کا نام آرزو مندوں کی فہرست میں بہت پہلے سے تھا، مگر جب کبھی اظہار کیا اسے کہا گیا کہ صبر کرو! ہم تمہاے شوق اور لگن سے آگاہ ہیں۔ تم خاص الخاص ہو۔ تمہارا انعام تمہاری چاہ سے کمتر نہیں، بلکہ تمہاری طلب اور تمہارے مقام کے شایان شان ہونا چاہیے۔ وہ مطمئن ہوگیا۔ ایک دن اس سے پوچھا گیا۔
’’محبوب سے ملنے کے خواہش مند! کیا تم کڑے امتحانوں سے گزرنے کی ہمت رکھتے ہو؟‘‘
’’میں ہر امتحان کے لیے تیار ہوں‘‘۔
امتحانوں کی نوعیت جانے بغیر اس نے بے ساختہ کہا اور پھر گاہے بہ گاہے اس کو کڑے امتحانوں سے گزارا جانے لگا۔ وقفے وقفے سے اس کے جذبۂ شوقِ وصال اور عقل سے ماوراء جذبۂ جنونِ دل کو بڑھاوا بھی دیا جاتا رہا۔ وہ ہر امتحان میں کامیاب رہا۔ حتیٰ کہ جب کالے بادلوں سے ڈھکے آسمان سے بوند بوند اترتی سیاہ رات میں شہر سے باہر ویران اور پرانی کھلی قبر میں لٹاکر ساری رات کے لیے جاگتا ہوا چھوڑ دیا گیا ، وہ وہاں سے بھی سرخرو ہو کر نکلا۔ تب بہت سے ساتھیوں نے گلے لگا کر اس کی ہمت، بہادری اور ثابت قدمی کی داد دی۔
بڑے کو لے جانے والی ہائی روف اپنے پہلے پڑاؤ کی طرف بڑھ رہی تھی، جو گھنٹہ بھر کی مسافت پر تھااور جہاں انہیں حتمی منزل کی طرف روانگی تک ٹھہرنا تھا۔ یہ پڑاؤ ایک دن اور ایک رات پر محیط تھا۔ اس دوران میں انہوں نے کی امور انجام دینا تھے، بہت ساری تیاریاں کرنی تھیں۔ جس وقت ہائی روف کے ٹائروں نے پکی سڑک کو چاٹتے چاٹتے اچانک کچی مٹی سے لپٹنا شروع کیا، اس وقت چھوٹا شہر پہنچ گیا۔ رستے دیکھے بھالے تھے۔ وہ یہاں بارہا آتا رہا تھا۔ کچھ ہی دیر بعد وہ ایک بڑی سرکاری عمارت کے دروازے پر کھڑا ہوا امیدواروں کا جمِ غفیر دیکھ کر حیران ہورہا تھا۔
لمحہ بھر کو اس پر مایوسی چھا گئی۔ وہ خاموشی سے ایک طرف کھڑا ہوگیا۔ لوگوں سے پوچھنے کے بعد اسے اپنی مطلوبہ قطار مل گئی ۔ وہ اس میں شامل ہوگیا۔ قطار کچھوے کی رفتار سے اور وقت خرگوش کی طرح چھلانگیں مارتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔ دفتر کے اوقات ختم ہونے کو آرہے تھے۔ صبح سے شام تک انٹرویو چلتا رہا۔ ہر چند کے سینکڑوں لوگوں کا نام پکارا گیا جو کبھی مایوسی اور کبھی شادمانی اوڑھے باہر نکلے، لیکن ہجوم یوں دکھائی دیتا تھا کہ جوں کا توں کھڑا ہوا ہے۔
پھر یوں ہوا کہ مجمع سارا ایک طرف سمٹنے لگا۔ چھوٹے نے دیکھا کہ ایک طرف سیڑھی پر کھڑے ہو کر کوئی شخص کچھ اعلان کررہا ہے۔ دور ہونے کے سبب آواز یہاں تک تو نہ پہنچی مگر بری خبرتھی اس لیے چاروں طرف پھیل گئی۔
باقی رہ جانے والے نوجوانوں کو انٹرویو کے لیے دوسرے روز بلوایا گیا تھا۔
’’یہ سب دھوکہ ہے بہانہ ہے۔۔۔‘‘ کوئی چلّایا۔
’’اندر بیٹھے لوگوں کو ذرا بھی احساس نہیں ہے‘ ‘۔۔۔ کوئی روہانسا ہوگیا۔
’’یہ بے حس ہوگئے ہیں۔۔۔‘ ‘کوئی دانت پیستے ہوے بولا۔
’’اس عمارت کو آگ لگادو۔۔۔‘ ‘کسی نے مکا لہراتے ہوے کہا۔
’’میں پہلے ہی کہہ رہا تھا کہ یہ ہمیں نوکری نہیں دیں گے۔۔۔‘‘ ایک اور بولا۔
’’ایسا نہیں ہے۔ میں نے خود ان صاحب کی بات سنی ہے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ آپ مایوس نہ ہوں، کل آجائیں، ہمارے پاس سینکڑوں اسامیاں خالی ہیں‘‘۔ کسی نے دہکتی زمین پر لفظوں کے ٹھنڈے چھینٹے مارے۔
مایوس لوگ ہمیشہ کی طرح بک بکا کر اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہوے اژدھے کے منہ کی طرح کھلے ہوے بڑے پھاٹک سے گزر کر ادھر ادھر بکھرنے لگے۔ نصف سے زائد لوگ چھوٹے شہروں سے آئے تھے، اگر دفتر والے چاہتے تو انٹرویو کے اوقات دیر تک بڑھائے جاسکتے تھے، لیکن چیونٹیوں کے رونے اور چلّانے کی آوازیں کون سنتا ہے۔ چھوٹے نے لمحہ بھر کو سوچا کہ گھر لوٹ جائے، مگر آخری جملے نے اسے امید کی ڈور سے باندھ دیا تھا۔ شہر میں بڑی خالہ کا گھر تھا۔ رات گزارنا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ لہذا قریب ترین پی سی او سے ماں کو فون کرکے بتادیا تاکہ وہ پریشان نہ ہوں، اور پھر بڑی خالہ کی طرف چلا گیا۔
دروازہ سدرہ نہ کھولا۔ وہ بڑی خالہ کی اکلوتی بیٹی تھی اسے دیکھتے ہی سدرہ کی بانچھیں کھل گئیں۔ وہ چلّائی۔
’’اماں! زرافہ‘‘۔
’’کیا بک رہی ہے؟‘‘
اماں نے چھوٹے کو دیکھتے ہوے اسے ڈانٹا۔ ’’تجھ سے بڑا ہے‘‘۔
بڑی خالہ نے آگے بڑھ کر ماتھا چوما، سر پر ہاتھ پھیرتے ہوے دعائیں دیں۔ وہ مسکراتا ہوا اندر چلا آیا۔
’’کچھ لوگ اگر چند ماہ پہلے پیدا ہوجائیں اور ان کی گردن بھی لمبی ہو تو اس میں بعد والوں کا کیا قصور؟‘ ‘سدرہ نے مصنوعی غصے سے کہا۔
’’اماں سے غلطی ہوگئی کہ بڑے بھیا کے لیے مانگ لیا۔ میرے لیے مانگ لیا ہوتا تو آج ناکوں چنے چبوادیتا‘‘۔
’’ناکوں چنے چبوانا غیر پارلیمانی جملہ ہے۔ لہذا اسے بحث سے خارج کیا جائے‘‘۔
سدرہ نے ہاتھ نچاتے اور نظروں کو ٹیڑھا کرکے مسکراتے ہوے کہا۔ بڑی خالہ نے اسے جھڑکا۔
’’چپ بیٹھ۔ نہ خیر نہ خبر، نہ بات چیت، بس آتے ہی نوک جھونک‘‘۔
پھر وہ چھوٹے سے مخاطب ہوئیں۔ ’بیٹا کب آئے، ماں کیسی ہے؟‘
’’اماں، ابا، بھیا سب ٹھیک ہیں اور میں بھی۔ آج میرا انٹرویو تھا، بہت زیادہ رش تھا، نمبر ہی نہیں آیا۔ اب کل بلوایا ہے‘‘۔
’’چلو اچھا ہوا تم آگئے۔ مجھے تمہاری ماں کو کچھ چیزیں پہنچوانا تھیں۔ سوچ رہی تھی کہ کیسے بھجواؤں‘‘۔
’’یہ کس کام کی دوا ہیں۔ ان کے ہاتھ بھجوادیتیں؟‘‘
’’بیٹا یہ تو اب ایک ہی بار جائے گی‘‘۔
’’اور پھر جا کر ایسے گھسوں گی، جیسے عرب کے خیمے میں اونٹ گھستا ہے۔ اور پھر سمجھ لو کہ اونٹ اندر اور عرب باہر‘‘۔
’’میں زرافہ ہوں یا نہیں، یہ نہیں معلوم۔ لیکن خود ہی مان رہی ہو کہ تم اونٹ ہو‘‘۔
’’ذرا عزت سے بات کرو۔ کیا بھابیوں سے ایسے بات کرتے ہیں؟‘‘
سدہ نے ایک بار پھر ہاتھ نچاتے اور نظروں کو ٹیڑھا کرکے مسکراتے ہوے کہا۔
’’اب بس کر ، جا۔۔۔ کھانا گرم کر، صبح سے کچھ نہیں کھایا ہوگا‘‘۔
’’بڑی خالہ! اللہ آپ کو خوش رکھے۔ اولاد کا سکھ دیکھنا نصیب کرے۔ مہمان نوازی کی رسم تو اب لوگ بھولتے جارہے ہیں‘‘۔
’’مہمان نوازی۔۔۔ اچھا بچّو! ابھی تم سے بدلہ لیتی ہوں۔ یاد کرو پچھلی بار تم نے مجھ سے کیا وعدہ کیا تھا؟‘‘
’’مجھے توکچھ یاد نہیں ہے؟‘‘
’’ہاں ہاں۔۔۔ یاد کیوں ہوگا۔ پیسے جو خرچ کرنے پڑ جائیں گے۔ بھولو مت۔ میرے ادھار سے بندھے ہوے ہو‘‘۔
’’مطلب کھانا نہیں کھلاؤ گی؟‘‘
’’گھر کا کھانا دس مرتبہ۔۔۔ لیکن مجھے۔۔۔‘‘
سدرہ نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔ چھوٹا اپنی ہونے والی بھابی کی محبت بھری چھیڑ چھاڑ پر مسکرانے لگا۔ اس نے سوچا کہ بڑا بھائی کتنا خوش قسمت ہے جو اسے گھر میں زندگی بکھیردینے والی بیوی مل رہی ہے۔ اس نے پیار بھری مسکراہٹ سے کہا۔
’’اپنی بھابی کے لیے جان بھی حاضر ہے۔۔۔ یہ کھانا کیا چیز ہے۔ بس ۔۔۔ ہزار روپیہ ادھار دے دو، نوکری ملتے ہی لوٹادوں گا‘‘۔
’’ایں۔۔۔‘ ‘سدرہ نے حیرت سے کہا۔
جس وقت شہر کے ایک بارونق رہائشی علاقے کے ایک مکان میں چھوٹا اور سدرہ نوک جھونک میں مصروف تھا، عین اسی لمحے شہر سے متصل مضافاتی بستی کے ایک مکان میں ایک شخص نے بڑے سے آکر کہا۔
’’پروگرام میں تھوڑی سی تبدیلی کردی گئی ہے۔ محبوب سے ملنے تمہیں آج ہی جانا ہوگا‘‘۔
’’کوئی خاص وجہ؟‘‘
گندمی رنگت والا تبدیلی کی وجہ سے آگاہ تھا، کیوں کہ یہ تبدیلی اس نے خود کی تھی۔ اسے اچانک پتا چلا کہ اگلے روز اس کا بڑا بھائی ، ماں اور بہن شہر آرہے ہیں جہاں ایک بڑے ہسپتال میں ماں کے گلے کے غدود کا آپریشن ہے۔ تاہم اس نے ٹھوس لہجے میں جواب دیا۔
’’شوقِ دیدار رکھنے والے سوال نہیں کیا کرتے‘‘۔
’’میری ایک درخواست ہے‘‘۔
’’کیا؟‘‘
’’کیا میں اپنے گھر فون کرسکتا ہوں؟‘‘
’’اب کیا مسئلہ ہے؟‘‘
’’صرف یہ معلوم کرنا ہے کہ چھوٹا گھر پہنچا یا نہیں؟‘‘
’’تمہارے موبائل پر گھر سے فون آیا تھا۔ وہ گھر پہنچ چکا ہے‘‘۔
گندمی رنگت والے نے بڑے کو جھوٹ بول کر مطمئن کرتے ہوے مزید کہا۔
’’ایک بات اچھی طرح یاد رکھو۔ یہاں سے تمہارا سفر اب صرف آگے کی طرف ہے۔ پچھلے تمام رابطے، رشتے، ناطے اس اگلے سفر کے آگے ہیچ ہیں۔ اب دوبارہ ماضی پر دھیان مت دینا‘‘۔
’’آپ کا حکم سرآنکھوں پر‘‘۔
اس نے گردن جھکادی اور سوال کرنے کی غلطی پر شرمندہ ہونے لگا۔ اسی اثنا میں کچھ اور لوگ کمرے میں آگئے۔ سب گلے مل کر مبارک باد دینے لگے۔ پھر کھردری بے رنگ دیوار کے ساتھ کھڑا کرکے وڈیو پر اس کے پیغامات ریکارڈ کیے جانے لگے۔ وہ جب بولا تو اس کا لہجہ سپاٹ، زندگی۔۔۔ محبت ۔۔۔ احساس اور درد کی لذت سے عاری تھا۔ جیسے کوئی لاش بول رہی ہو۔
’’امی جان! السلام و علیکم۔ آپ کے بیٹے نے زندگی کا سب سے خوبصورت جوہر پالیا ہے۔ آج میں موت کو شکست دینے جارہا ہوں۔ آج کے بعد میرا ٹھکانہ وہ ہوگا جو شہدا کا ہوتا ہے۔ میری موت پر آنسو مت بہانا، کیوں کہ شہیدوں کی مائیں رویا نہیں کرتیں‘۔ وہ اپنے والد سے مخاطب ہوا۔ ’ابا جی! آج کے بعد آپ کا سر فخر سے بلند ہوجائے گا۔ چھوٹے! اس نے چھوٹے کو یاد کرتے ہوے کہا۔ ’مجھے یقین ہے آج تمہارا انٹرویو بہت شاندار ہوا ہوگا۔ میں تمہیں نوکری ملنے کی پیشگی مبارک باد دیتا ہوں۔ اب تم میری اس درخواست کو بڑے بھائی کا حکم سمجھ کر قبول کرو کہ میری شہادت کے بعد تم سدرہ سے شادی کرلو گے۔ تم دونوں کی جوڑی بہت خوبصورت لگے گی۔ اب میں آپ سب سے رخصت ہوتا ہوں۔ الوداع‘‘۔
یہ سب کہتے ہوے نہ اس کے اندر لاوا پھوٹا، نہ آہ نکلی، نہ دماغ نے کچھ سوچا اور نہ دل نے کچھ جانا۔ بعد ازاں اس نے کچھ اور پیغامات ریکارڈ کروائے جن میں روح تو درکنار رشتوں کے القابات بھی نہ تھے۔
کیمرہ رک گیا۔ کچھ لوگ باہر چلے گئے۔ اب کمرے میں بڑے اور گندمی رنگت والے کے علاوہ دو افراد اور تھے۔ چاک و چوبند اور اپنے ہنر میں ماہر۔ دونوں نے انتہائی مہارت سے کچھ امور انجام دینا شروع کردیئے۔ گندمی رنگت والا بڑے کو سمجھاتا جارہا تھا۔
بڑا سنتے ہوے کہیں اور کھو گیا۔ اس کا دھیان چھوٹے بھائی کی طرف گیا جسے آج صبح اس نے یہیں آنے والی بس میں بٹھایا تھا۔ اسے یقین آگیا تھا کہ وہ گھر لوٹ چکا ہے۔ گھر کا سوچتے ہی ماں یاد آئی۔ ماں اس وقت سوچکی ہوگی۔ وہ جلد ہی سوجاتی تھی۔ ابا کو بہت سویرے فیکٹری جانا ہوتا ہے۔ اس کی نظروں میں ابا کا جھریوں بھرا چہرہ گھوم گیا۔ یہ جھریاں بڑھاپے اور بیماریوں کا ملا جلا نتیجہ تھیں۔ اب وہ بوڑھے ہوگئے ہیں۔ چھوٹے کی نوکری لگتے ہی وہ ریٹائرمنٹ لے لیں گے۔ نوکری کے بعد میری وصیت جو انہیں کل مل جائے گی، کے مطابق چھوٹے کی سدرہ سے شادی ہوجائے گی۔ سدرہ میری بچپن کی مانگ ہے، مگر ہمیشہ مجھ سے خوف اور الجھن بھرا فاصلہ رکھتی ہے، جب کہ چھوٹے سے اس کی خوب گاڑھی چھنتی ہے۔ جیسے دونوں ایک دوسرے کے لیے ہی بنے ہوں۔
اچانک گندمی رنگت والے نے اسے ٹوکا۔
’’تمہارا دھیان اب صرف اور صرف مشن پر ہونا چاہیے‘‘۔
خیالوں کے اڑتے پرندے یکایک زمین بوس ہوگئے کچھ دیر بعد وہ تیار ہوچکا تھا۔ سفید ہائی روف اسے لے کر مضافات سے شہر کی طرف روانہ ہوگئی۔ زندگی اور زندہ ہونے کے جواز سے بھرپور کئی موڑ کاٹنے اور احتیاط اور بد احتیاطی کے کتنے ہی سگنل پار کرنے کے بعد ہائی روف قدرے مصروف شارع پر آگئی۔ برابر میں بیٹھا ہوا شخص بولا۔
’’لو تمہاری منزل آگئی‘‘۔
چوراہے سے گزرتی ہوئی گاڑی دھیرے دھیرے ایک بڑے ہورڈنگ کے سائے تلے رک گئی۔ ہورڈنگ پر سرخ سوالیہ نشان کے سوا کچھ نہ تھا۔ اشتہاری دنیا کی جدت طرازی کا نمونہ، جس میں صارف کو دھیرے دھیرے تجسّس میں مبتلا کرکے نئی مصنوعات کا عادی بنایا جاتا ہے۔ لیکن اس وقت یہی بڑے سوالیہ نشان والا ہورڈنگ، نیچے چھوٹی سی ہائی روف میں بیٹھے لوگوں کی موجودگی کو نئی معنویت دے رہا تھا۔ بڑا دروازہ کھول کر ہائی روف سے اترا، ادھر ادھر دیکھے بغیر دھیرے دھیرے چلتا ہوا لوگوں میں گم ہوگیا۔ ہائی روف آگے بڑھ گئی۔ جس کا اب نیا ٹھکانا مضافات کی مخالف سمت تھا، کیوں کہ اب ٹھکانا بدلنا ضروری ہوگیا تھا۔
چوراہا کھانے پینے کا مشہور مرکز تھا۔ یہاں پان سے لے کر بوفے تک سب دستیاب تھا۔ جگہ کی کمی کے باعث میز کرسیاں فٹ پاتھ پر ہی لگائی جاتی تھیں۔ بڑا مناسب جگہ کا انتخاب کرنے لگا۔ اس نے ایک فروٹ چاٹ والے ٹھیلے کے نزدیک جگہ منتخب کرلی۔ لاابالی دکھائی دینے کی کوشش میں وہ بے فکری کی ڈھیلی چال چلتا ہوا ٹھیلے کے قریب چلا گیا۔ اس نے جیب میں خاص طور سے رکھی سگریٹ نکالی اور ہونٹوں سے لگاتے ہوے پاس کھڑے نوجوان سے ماچس مانگی نوجوان بولا۔
’’سوری! میں سگریٹ نہیں پیتا‘‘۔
’’پھر تو جھک مارتے ہو‘‘ بڑے نے تڑاخ سے جواب دیا۔
’’کیا بکواس کرتے ہو؟‘‘ نوجوان غصے میں آگیا۔
’’بکواس میں نہیں تو کررہا ہے‘‘۔ بڑے نے مزید ہوا دی۔
’’تمہارا دماغ خراب ہے کیا؟ ‘‘ نوجوان چیخا۔
’’ابے او! تو میری ماں کو گالی بکتا ہے۔ میں تجھے جان سے ماردوں گا‘‘۔
بڑے نے فوراً پینترہ بدلا۔ نوجوان بھونچکا رہ گیا۔
’’میں نے تمہاری ماں کو گالی کب بکی ہے؟‘‘
نوجوان کی بات سنی ان سنی کرتے ہوے بڑا چیختے ہوے سینہ تان کر آگے بڑھا۔
نوجوان گھبرا کر پیچھے ہٹ گیا۔ اتنی دیر میں آس پاس موجود کئی لوگ قریب آگئے۔
اس لمحے گندمی رنگت والے کا کہا ہوا فقرہ چھناکے سے اس کے دماغ میں پھیل گیا۔
’’یاد رکھو مقصد عظیم ہوتا ہے انسان نہیں۔ ہاں! جو انسان عظیم مقصد کے لیے جان دیتا ہے وہ عظیم ہوجاتا ہے۔ جو خود جان دے وہ پروا نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ مرنے والے کون تھے، کیسے تھے۔ بس ہر رکاوٹ کو توڑتے ہوے مشن مکمل کرو‘‘۔
یہ سوچتے ہوے اس کا ہاتھ حرکت میں آگیا۔ لیکن مکافات کی اس خشک زمین پر فیصلوں کی بارش برسانے والے آسمان تلے، وہ اس بات سے بے خبر تھا کہ فروٹ چاٹ کے ٹھیلے سے دس قدم آگے باربی کیو ہوٹل کے باہر بچھی ہوئی کرسیوں پر چھوٹا اور سدرہ بیٹھے اسی کے بارے میں گفتگو کررہے ہیں۔ شور شرابا سن کر چھوٹا ہنگامہ دیکھنے کے لیے اٹھا۔
’’چھوڑو بھی! یہ تو روز کا معمول ہے‘‘۔ سدرہ نے بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوے کہا۔
’’دیکھوں تو آخر اچانک ہوا کیا‘ ‘۔ یہ کہتے ہوے وہ آگے بڑھ گیا۔
’’کوئی میری ماں کو گالی بکے میں برداشت نہیں کرسکتا‘‘۔
چھوٹے کے کانوں سے جوں ہی یہ آواز ٹکرائی وہ چونکا۔’ ’یہ آواز۔۔۔‘‘
آواز کی بازگشت سے اس کے قدم خو دبخود تیز ہوگئے۔ اس نے تیزی سے لوگوں کو چیرتے ہوے راستہ بنانے کی کوشش کی۔ وہ بے چین ہو کر بولا۔
’’ارے بھائی راستہ تو دے دو‘‘۔
نہیں معلوم یہ آواز کی تڑپ تھی، خون کی کشش یا کوئی اور مقناطیسی طاقت کہ راستہ بن گیا اور وہ ہجوم کو چیرتا ہوا قریب سے قریب تر ہوتا چلا گیا۔ یکایک لمحے منجمد ہوگئے۔ آنکھیں پتھر، دماغ وزنی پہاڑ، دل برف کی سل اور دھڑکنیں برف کی طرح جمے ہوے دل پر بوند بوند چپک گئیں۔ لوگوں کی بھنبھناہٹ چیونٹیوں کی چیخ کی طرح ہوگئیں، جو موجود تو ہوتی ہے مگر سنائی نہیں دیتی۔ چھوٹے کا شک یقین میں بدل گیا۔ آواز اس کے بڑے بھائی کی تھی۔ جب اس نے پکارا تب تک بڑے کا ہاتھ بٹن کے اوپر پہنچ چکا تھا۔ اس لمحے کئی روز سے شل دماغ اور منجمد دل والے رشتوں کے الاؤ میں محبت کے ڈنٹھل پر پہچان کی سلگتی چنگاری بھڑکی مگر تب تک دیر ہوچکی تھی۔
(۲۰۰۷ء)