چوپال میں سنا ہوا قصہ
گاؤں کی چوپال ویران پڑی ہوئی ہے۔ پوہ کی رات ہے۔ برفیلے جھونکوں سے برگد پر ٹنگی قندیلیں جھول جھول جاتی ہیں.....ایک بوڑھا گاؤں سے دور چلا جاتا ہے۔ ایک ہاتھ میں اس کے فاختہ ہے اور دوسرے میں کتاب۔ پیچھے پیچھے اس کے ایک گدھا چلا جاتا ہے، پیٹھ پر جس کی ایک صندوق لدا ہوا ہے اور وہ صندوق مقفل ہے۔
گاؤں کی وہی چوپال ہے، لیکن اب آباد ہوچکی ہے۔ متعدد لوگ کانپتے لرزتے چوپال میں بیٹھے ہیں اور قصہ گو سے قصہ سن رہے ہیں۔
قصہ گو کہتا ہے، ’’قصہ کوتاہ— وہ کھیل برسوں پہلے جاری ہوا تھا، اب تک جاری ہے اور اس شدت سے جاری ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔‘‘
مجمع میں سے کوئی پوچھتا ہے:
’’بھائی! وہ کونسا کھیل ہے جو برسوں پہلے جاری ہوا تھا اور اب تک جاری ہے اور ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا؟‘‘
قصہ گو کہتا ہے، ’’کیا نووارد ہو اس گاؤں میں؟ جو اس کھیل سے واقف نہیں۔‘‘
وہ شخص جواب دیتا ہے:
’’ہاں بھائی! مسافر ہوں— سفر میں رات پڑگئی سو آپ کے گاؤں کی سرائے میں رک گیا۔‘‘
تب قصہ گو کہتا ہے، ’’چوپال میں بیٹھے ان لوگوں سے پوچھ دیکھو، ممکن ہے ان میں سے کوئی سنائے تمہیں وہ کھیل والا قصہ— میں قصہ گو ہوں۔ میرا کام ہر رات نئے نئے قصے سنانا ہے۔ کل کا قصہ ادھورا رہ گیا تھا، سو آج اسے مکمل کردیا۔ اب نیا قصہ سنانے جارہا ہوں۔‘‘
وہ بوڑھا ایک ہاتھ میں فاختہ کو تھامے اور دوسرے میں کتاب اٹھائے ایک قصبے میں داخل ہوتا ہے۔ وہ گدھا بدستور اس کے پیچھے پیچھے چلا جاتا ہے کہ پیٹھ پر جس کی صندوق لدا ہوا ہے اور وہ صندوق مقفل ہے۔ اس قصبے میں سبھی کچھ ہے لیکن آدم نہیں! آدم زاد نہیں!! مکانات ہیں، دکانیں ہیں، بازار ہیں، عبادت گاہیں ہیں، مدرسے ہیں، کھیل کے میدان ہیں، سڑکیں ہیں، چوراہے ہیں، چوراہوں پر نصب مجسمے ہیں، رفاہ عامہ کے دفاتر ہیں، عدالتیں ہیں، ٹکسال ہے، سواریاں ہیں، لیکن آدم نہیں! آدم زاد نہیں!!
قصہ گو کہتا ہے، ’’تو صاحبو! بستی کے حاکم نے اسے اپنے سینے سے لگایا اور آخری بار اپنی تاکید کو دہراتا ہوا بولا کہ دیکھ وہاں پہنچ کر تو اپنے فرض سے غافل نہ ہوجانا......عیش و نشاط میں نہ پڑنا....تیری گمرہی کا سارا سامان ہوگا وہاں.... لیکن سن کہ جب وہ تجھے جوا کھیلنے کی دعوت دیں تو تو ان کے ساتھ گنجفہ کھیلنے نہ بیٹھ جانا۔ ....بلکہ تو انہیں چوسر کھیلنے پر آمادہ کرنا.....اور وہ جب چوسر کھیلنے پر رضا مند ہوجائیں تو تو ہربازی جیتنے کی کوشش کرنا....ہزار جتن کے باوجود تو ایک بھی بازی جیت نہ پائے گا ان سے....تیرے ساتھ بستی کا سارا سرمایہ دیا جاتا ہے، اس امید پر کہ تو اسے صحیح مصرف میں لائے گا......اور وہ مصرف ہے ان کے پانسے کو وہاں سے برآمد کرنا......تو صاحبو! یہ کہہ کر بستی کا حاکم چند لمحوں کے لئے رکا اور پھر طاقچے سے زردپتوں میں لپٹی ایک کتاب اٹھا کر اس منتخبہ آدمی کے حوالے کی اور اسے درمیان سے کھولنے کا حکم دیا— کتاب کے صفحوں میں ایک جوف تھا اور اس جوف میں ایک پانسا دبا تھا! بستی کے حاکم نے کہا کہ دیکھ یہ پانسا جو اس کتاب کے جوف میں دبا ہے ان کے پانسے سے بدل لینا۔ اور یہ بھی سن کو جو علامتیں ان کے پانسے پر بنی ہیں وہ ایک طلسم کا نقش ہیں......تو ان کے پانسے کو اس کتاب کے جوف میں دفن کر کے اپنی پہلی فرصت میں جلا دینا......پانسے کے جلتے ہی وہ طلسم ٹوٹ جائے گا۔اور طلسم کے ٹوٹتے ہی ہم ان کے عذابوں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محفوظ ہوجائیں گے......لیکن یاد رکھ! کام پل صراط سے گزرنے کے مترادف ہے..........وہاں ہر خطاکار کو صلیب دینے کا دستور ہے.....کامیابی تیری قسمت پر منحصر ہے......ہم تیری سلامتی کی دعا کرتےرہیں گے۔‘‘
اس نے پل بھر کے لئے سوچا۔ اس کا م کا نہ تو مجھے کوئی معاوضہ دیا جائے گا نہ انعام...........نہ تو میرے کام کی پذیرائی ہوگی، نہ مجھے کوئی حوصلہ ملے گا......جو زندگی جی رہا ہوں وہ کوری اور سپاٹ ہے، بے کیف ہے، بے معنی ہے اور جیتے جیتے تنگ آچکا ہوں میں۔ یہ کوری، سپاٹ، بے کیف اور بے معنی زندگی.......میرا عدم وجود برابر ہے۔ یہ سوچتا ہوا وہ مہم پر روانہ ہوا—
دفعتاً ایک پراسرار سی گونج سنائی دی۔ چوپال میں بیٹھے سردی سے ٹھٹھرتے قصہ سنتے ہوئے لوگ چونک پڑے۔ قصہ گو کے لب سل گئے۔ وہ گونج رفتہ رفتہ ایک شور میں بدل گئی۔ پھر اس شور میں گھوڑوں کے ٹاپوں کی دھمک پیدا ہوگئی۔ چوپال میں بیٹھے، سردی سے ٹھٹھرتے ہوئے لوگوں کے چہرے یکایک یرقان زدہ سے ہوگئے۔ ان کی آنکھوں کے ڈھیلے اپنے خانوں سے ابل پڑے۔ قصہ گونے لرزتی ہوئی قندیلوں کو بجھا دیا۔ چوپال اندھیرے کی قبر میں ڈوب گئی۔ آن واحد میں چالیس گھڑسوار چوپال کے قریب سے دندناتے ہوئے گزر گئے۔ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد سناٹے کو چیرتی ہوئی آواز آئی۔
’’کھل جا سم سم، کھل جا سم سم ........جا سم سم....‘‘
کسی چٹان کے سرکنے کی زبردست گڑ گڑاہٹ سنائی دی۔ کچھ دیر تک گھوڑوں کے ٹاپوں کی بازگشت سنائی دیتی رہی۔ اس کے بعد مکمل خاموشی چھاگئی۔
برگد پر ٹنگی ہوئی قندیلوں کو قصہ گو نے پھر روشن کردیا۔ چوپال میں بیٹھے ہوئے لوگوں کی کیفیت اپنے معمول پر لوٹ آئی۔
نووارد نے پوچھا: ’’کون تھے وہ لوگ؟‘‘
سب خاموش رہے کسی نےکوئی جواب نہیں دیا۔
نووارد نے پھر پوچھا: ’’کیا یہ گھڑسوار ہر رات یہاں سے گزرتے ہیں؟ کیا ان کا مسکن اسی غار میں ہے؟‘‘
چوپال میں بیٹھے ہوئے لوگ اب بھی خاموش رہے۔ کسی نے کوئی جواب نہیں دیا۔
قصہ گو نے کہا: کوئی نہیں جانتا انہیں......کوئی نہیں جانتا....ان کے اسرار جاننے کی کوشش میں اس بستی نے اپنے بیسیوں سپوت کھوئے ہیں۔ جو بھی اس مہم پر گیا لوٹ کر نہیں آیا۔‘‘
یہ سنتے ہی نووارد کو اچانک سردی کا شدید احساس ہوا۔ وہ اپنی جگہ پر دبک کر بیٹھ گیا۔
وہ بوڑھا اب ایک میدان میں حیرت زدہ سا کھڑا ہے۔ فاختہ اب اس کے داہنے شانے پر بیٹھی ہوئی ہے اور بوڑھے نے کتاب سینے سے لگا رکھی ہے۔ گدھا سعادت مندی سے اس کے پیچھے سر جھکائے ہوئے کھڑا ہے۔ پیٹھ پر اس کے وہ صندوق لدا ہوا ہے اور وہ صندوق مقفل ہے۔ میدان کے ایک سرے پر بے شمار صلیبیں ایستادہ ہیں۔ ان پر ٹنگے جسموں سے خون رس رہا ہے۔ سیاہ پروں اور نکیلی چونچوں والے پرندے اڑتے اڑتے آتے ہیں اور جھپٹ کر ان مصلوب زدہ جسموں کا گوشت نوچ کر چلے جاتے ہیں۔ میدان کے دوسرے سرے پر چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں بٹے لوگ گنجفہ کھیل رہے ہیں۔
بوڑھا بآواز بلند کہتا ہے:
’’بھائیو! تمہاری بستی میں نووارد ہوں۔ لمبا سفر طے کرتا یہاں تک پہنچا ہوں۔ تھکاماندہ ہوں۔ زاد راہ سے محروم ہوں۔ آج سبات کا دن ہے، یعنی روزے اور آرام کا دن۔ اللہ والا ہوں اس لئے تم سے سرائے کا پتہ پوچھتا ہوں، بتاؤ تو جاکر پڑرہوں۔ اور تم سے بھی گزارش کرتا ہوں کہ آج سبات کا دن ہے، یعنی روزے اور آرام کا دن۔ اس لئے عبادت کرو اس پروردگار کی کہ جس نے زمین آسمان بنائے اور دن رات کو چاند سورج کی قندیلوں سے روشن کیا۔‘‘
انہوں نے اس کی بات پر قہقہے لگائے اور بجائے اس کی ہدایت پر غورکرنے کے، اس کے مال و متاع کا سودا کرنے لگے۔
بوڑھے نے کہا: ’’عزیزو! میرے مال و متاع کا سودا نہ کرو۔‘‘
’’یہ فاختہ اور یہ کتاب دونوں تمہارے ہیں اور اس گدھے کی پیٹھ پر لدا ہوا یہ صندوق بھی تمہارا ہے۔ میں تو ان کا امانت دار ہوں۔‘‘
انہوں نے دریافت کیا:
’’اس صندوق میں کیا ہے؟‘‘
بوڑھا بولا:’’تمہارا اثاثہ۔‘‘
ان میں سے ایک کہ جو بچا تھا کہ اس کا داہنا کان ندارد تھا بولا:
’’ہمارے نوشتوں میں لکھا ہے کہ پڑوس کی بستی سے کوئی آئے گا اور ہمارا پانسا ہم سے چرالے جائے گا— اس قلندرانہ بھیس میں کہیں تم ہی تو وہ سارق نہیں؟‘‘
بوڑھا گلوگیر آواز میں بولا: ’’صاحبو چاہو جو کہہ لو، میں برا نہیں مانتا— حقیقت تو یہ ہے کہ میں وہ شخص نہیں کہ جس کی آمد کی تم خبر رکھتے ہو۔ مگر دکھ اس بات کا ہے کہ تم اس کی پہچان نہیں رکھتے۔ ایک اعتبار سے تمہارا شبہ درست ہے۔ اس ٹھگ بازاری کے دور میں سب کچھ ممکن ہے— مجھ پر اعتبار کرو کہ میں وہ نہیں ہوں کہ جس کی آمد سے تم خوف زدہ ہو— مجھے سرائے کا پتہ بتاؤ تاکہ وہاں پہنچ کر میں اپنی شب بسری کا سامان کروں۔‘‘
وہ آپس میں مشورہ کرنے لگے اور بحث و مباحثہ کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ بوڑھا وہ سارق نہیں ہے۔ جس کا نوشتوں میں ذکر آیا ہے۔ انہوں نے بوڑھے کو اپنے پاس بلایا اور اپنے قریب بیٹھنے کو کہا۔
پھر انہوں نے اسے مچھلی اور روٹی پیش کی اور پیالہ شراب کا لبریز کر کے اس کے آگے رکھ دیا۔
بوڑھا روٹی کھاتا جاتا تھا اور شراب کے گھونٹ لیتا جاتا تھا۔ ان میں سے ایک جو کہ بُچ٘ا تھا جس کا داہنا کان ندارد تھا بولا:
’’اے بوڑھے! تو نے ابھی ابھی بتایا تھا کہ تو روزے سے ہے اور دن سبات کا ہے، اسے عبادت میں گزارنا چاہیئے۔ لیکن میں دیکھتا ہوں کہ تو نہ صرف روٹی کھا رہا ہے بلکہ شراب بھی پیئے جارہا ہے اور اس گنجفے کے کھیل میں تیری دلچسپی بھی شامل ہے۔ سچ سچ بتا کہ تو کون ہے؟‘‘
بوڑھا بولا: ’’یہ سچ ہے کہ میں روزے سے تھا اور دن عبادت میں گزار دینا چاہتا تھا۔ اگر تم مجھے اپنے میں شامل نہ کرتے اور مجھے سرائے پہنچا دیتے تو میں ہرگز اپنا روزہ نہ توڑتا— لیکن تم نے مجھے اپنے میں شامل کر لیا اس لئے میں نے پروردگار سے معافی طلب کی اور اپنا تقویٰ تمہاری خوشنودی کی نذر کردیا۔ تم جانتے ہو کہ روشنی گدلے پانی سے نہیں چھنتی۔ وہ بذات خود گدلی ہوجاتی ہے۔ میں نے روشنی کو گدلا ہونے سے بچا لیا۔‘‘
وہ اس کے دلائل سے قائل ہوگئے اور ناگواری سے اس بُچ٘ے کو دیکھنے لگے، اس پر بُچ٘ے نے اپنی ہتک محسوس کی اور دل ہی دل میں پیچ و تاب کھانے لگا۔
کچھ دیر بعد بوڑھا اپنی جگہ سے اٹھا اور ٹہلتا ہوا ان صلیبوں کے قریب جا پہنچا۔ بُچ٘ا کہ جوسائے کی طرح بوڑھے کے ساتھ ساتھ تھا بولا:
’’اے بوڑھے تو کس ملک کا باشندہ ہے؟ اور کس ملک کو جاتا ہے؟‘‘
بوڑھا بولا:
’’نہ تو میرا کوئی آغاز ہے نہ انجام! میں نے زندگی بھر مسافری کی ہے۔ شہر شہر، قریہ قریہ گھوما ہوں۔ جگہ جگہ رک کر اس کتاب میں درج حمد سناتا ہوں۔ لوگ سن کر خوش ہوتے ہیں تو میرے آگے کچھ رکھ دیتے ہیں، اور ناراض ہوتے ہیں تو آوارہ کتوں کو میرے پیچھے لگادیتے ہیں۔ تب میں ان کے حق میں دعائیں کرتا وہاں سے چل دیتا ہوں۔ مگر تم بتاؤ کہ ان صلیبوں پر مصلوب کئے گئے لوگ کون؟ اور یہ لوگ یہاں کیوں کر پہنچے ہیں؟‘‘
بُچ٘ے نے ایک سمت انگلی اٹھا کر میدان کی طرف اشارہ کیا.....اور بولا ’’وہ رہا تیرے سوال کا جواب۔‘‘
بوڑھے نے دیکھا کہ دور کوئی شخص اپنی پیٹھ پر ایک وزنی صلیب اٹھائے گرتا پڑتا چلا آتا ہے اور بے شمار کتے اس کے تعاقب میں ہیں۔ بوڑھا تیزی سے اس شخص کی طرف بڑھا۔ بُچ٘ے نے چیخ کر کہا:
’’رک جا بڈھے، کیا کرتا ہے۔ وہ کتے تیری تکا بوٹی کردیں گے۔ خاطر جمع رکھ، وہ کتے وہاں سے لوٹ جائیں گے۔ ان کا کام خطا کار کو وہاں تک پہنچانا ہے۔ اس کے بعد وہ ہمارے دائرہ اختیار میں آجاتا ہے۔‘‘
یہ سن کر بوڑھا اپنی جگہ پر پتھر ہوگیا۔ لیکن اب وہ بڑی درد مندی سے اس سمت دیکھ رہا تھا۔ کچھ دیر بعد اس نے دیکھا کہ کتے واقعی اس صلیب بردار شخص کو چھوڑ کر واپس ہو رہے تھے۔
آن واحد میں آسمان پر کالے پروں اور نکیلی چونچوں والے پرندے منڈلانے لگے، ان کی کریہہ الصوت چیخوں سے فضا مکدر ہوگئی۔ صلیب کے بوجھ سے نڈھال وہ شخص لڑکھڑاتا ہوا ان کے قریب آیا۔ بُچ٘ے نے جھپٹ کر اس کے عبا کی جیب میں سے ایک پرزہ نکالا اور بآواز بلند پڑھنے لگا:
’’سردار کاہنوں، فریسیوں اور صدر عدالت کے متفقہ فیصلے کے مطابق اسے صلیب دی جاتی ہے۔ اس کا جرم ہے کہ اس نے ہمارے مقدس پانسے کو چرانے کا قصد کیا تھا۔‘‘
بوڑھے نے صلیب بردار شخص کو سہارا دیا کہ وہ کھڑا ہوسکے۔ ایک نظر میں یوں لگتا تھا کہ گویا اس کے جسم پر کئی لوگوں نے اپنے اپنے ہتھیاروں کو رگڑ رگڑ کر آب دی ہو۔ وہ جو میدان کے دوسرے سرے پر بیٹھے گنجفہ کھیل رہے تھے صلیب بردار شخص کو دیکھ چکے تھے، بازی کے خاتمے پر بدن اینٹھتے، سستی اتارتے اٹھے۔ پھر انہوں نے پاس ہی پڑا ہوا ایک وزنی تھیلا اٹھایا اور اس طرف کو چل پڑے۔
لذ٘ت اور مسرت سے سرشار جب وہ سادی٘ت پرست بُچ٘ا کہ جس کا داہنا کان ندارد تھا اپنے ساتھیوں کو پرزے پر درج وہ مژدہ سنانے کو جوں ہی دوڑا صلیب بردار شخص نے موقع غنیمت جان کر بوڑھے سے عاجزانہ درخواست کی:
’’اے پیرباراں دیدہ! وہ جو مشرق کی سمت ٹیلہ نظر آتا ہے اس کے پرلی طرف ایک بستی ہے۔ میں ساکن اس بستی کا ہوں۔ میری التجا ہے کہ وہاں جاکر میرا سارا ماجرہ کہہ سنا اور دیکھ کر میرےسینے سے بندھی ایک کتاب ہے تو اسے کھول کر اپنے پاس محفوظ کر لے اس میں وہ پانسہ دیا ہے جس سے ان ستمگاروں کا پانسہ بدلنے اور پھر اسے اسی کتاب میں دفن کر کے پھونک دینے کا فریضہ بستی کے حاکم نے مجھ کو سونپا تھا۔ تو یہ کتاب ان کو بہ حفاظت پہنچا دینا۔‘‘
بوڑھے نے پھرتی سے وہ کتاب اپنی تحویل میں لے لی اور ایک نظر میں اس کا جائزہ بھی لے لیا۔ کتاب کے جوف میں وہ پانسہ اب بھی موجود تھا۔
بوڑھے نے اپنے دل میں اس نوجوان کے تعلق سے عجیب لگاؤ محسوس کیا۔
جاں نثاری کے شدید جذبے میں پوشیدہ دلکشی عین رخصتی کے وقت بے نقاب ہوئی تھی۔
اور جبر کی بارود سے مسمار کئے گئے وجود سے اٹھتا ہوا دھواں بھی بوڑھے نے اس کی آنکھوں میں دیکھ لیا تھا۔
بوڑھے نے اپنے دونوں ہاتھ سینے پر رکھ کر قسم کھائی کہ وہ بذات خود یہ فریضہ انجام دینے کی کوشش کرے گا ورنہ اس کی سونپی ہوئی امانت بستی کو پہنچا دے گا۔
نوجوان درد مندی سے مسکرایا اور بولا:
’’اب مجھ پر موت کی اذی٘ت گراں نہ گزرے گی۔ میں اسےآسانی سے برداشت کرلوں گا۔‘‘ یہ کہہ کر نوجوان خاموش ہوگیا۔
اس کے الفاظ بوڑھے کے کانوں میں بڑی دیر تک گونجتے رہے۔
وہ بڑے اطمینان سے چلتے ہوئے وہاں پہنچے۔ انہوں نے بوڑھے کو پرے ہٹنے کا اشارہ کیا۔ بوڑھا کچھ فاصلے پر پیڑ کے سائے میں بیٹھے ہوئے اپنے گدھے کے قریب جاکر کھڑا ہوگیا کہ جس کی پیٹھ پر وہ صندوق لدا ہوا تھا اور وہ صندوق مقفل تھا۔ فاختہ بے چینی کی حالت میں بوڑھے کے ایک کندھے سے دوسرے کندھے پر آجارہی تھی۔
انہوں نے اس کی پیٹھ سے بندھی صلیب کھول دی اور صلیب کو فرش پر لٹا دیا۔ پھر انہوں نے اس کے عبا کو اس کے جسم سے جدا کیا۔ پھر اسے صلیب پر یوں لیٹنے کا حکم دیاکہ اس کے شانوں تک کا جسم صلیب کے عمودی حصے پر رہے اور دونوں بازو کھل کر صلیب کے افقی حصے پر پھیل جائیں۔ وہ صلیب پر لیٹ گیا اور اس نے اپنے جسم کو ان کی ہدایت کے مطابق صلیب پر قائم کردیا۔
انہوں نے اس وزنی تھیلے میں سے تسمے نکالے اور اس کے صلیب پر دائیں بائیں پھیلے ہوئے بازوؤں کو ان تسموں سے صلیب کے ساتھ کس دیا۔ اس کے بعد انہوں نے اس کا ایک پاؤں دوسرے پاؤں پر یوں رکھا کہ اس کی دونوں پنڈلیاں آپس میں جڑگئیں۔ انہوں نے اس کی پنڈلیوں کو بھی ان تسموں کی مدد سے صلیب کے ساتھ جکڑ دیا۔
جب وہ ایک دوسرے سے مشورہ کر کے مطمئن ہوگئے کہ وہ صلیب سےخوب اچھی طرح جکڑا جاچکا ہے۔ یہاں تک کہ اپنے ہاتھ پیر کو جنبش دینے سے بھی مجبور ہے تو انہوں نے اس بُچ٘ے کو کہ جس کا داہنا کان ندارد تھا اور جو دور کھڑا پیشاب کر رہا تھا یوں اشارہ کیا کہ گویا جانور باندھ کر گرایا جاچکا ہے اور ذبیحہ کے لئے تیار ہے۔ ان کا اشارہ پاتے ہی بُچ٘ا اچھلتا کودتا، قلقاریاں مارتا ہوا وہاں جاپہنچا۔
وہاں پہونچتےہی بُچ٘ے نے اس وزنی تھیلے میں سے بالشت بھر لمبے اور دو دو انگل موٹے تین عدد کیلے نکالے، پھر ایک وزنی ہتھوڑا نکالا۔ یہ منظر بوڑھے کے کندھے پر پہلو بدلتی فاختہ دیکھ رہی تھی، وہ گدھا بھی دیکھ رہا تھا کہ جس کی پیٹھ پر وہ صندوق لدا تھا اور وہ صندوق مقفل تھا۔ یہ منظر بُچ٘ے کے رفقائ بھی دیکھ رہے تھے۔ لیکن یہ منظر وہ بوڑھا نہیں دیکھ رہا تھا۔ اس نے اپنی آنکھیں میچ رکھی تھیں۔ لیکن وہ اپنے دیگر حواس اربعہ کو پابند نہ کرسکا تھا وہ تمام حواس اس منظر کو آنچ دیتے ہوئے بوڑھے کے ذہن میں منتقل کر رہے تھے۔
بُچ٘ے نے بجلی کی سرعت سے ان بالشت بھر لمبے اور دو دو انگل موٹے کیلوں کو یکے بعد دیگرے نوجوان کی کلائیوں اور نچلے پنجوں میں اس وزنی ہتھوڑے سے ٹھونک ٹھونک کر پیوست کردیا۔ نوجوان کی ضبط کی ہوئی سسکیوں سے وہ وزنی صلیب لرزنے لگی۔ بوڑھے کے کندھے پر پہلو بدلتی فاختہ تڑپ کر گری اور جاں بحق ہوگئی۔ بوڑھے نے فاختہ کو کانپتی ہتھیلیوں میں اٹھایا۔ پھونک پھونک کر اس کے خاکستری پروں سے گرد اڑائی، اسے آنکھوں سے لگایا اور پھر دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔
قصہ گو نے آسمان پر نظر ڈالی اور چوپال میں بیٹھے سردی سے ٹھٹھرتے اور محویت سے قصہ سنتے ہوئے لوگوں سے کہا۔’’تو صاحبو! آسمان پر تارے ایک ایک کر کے رخصت ہوتے ہیں اور مشرق میں صبح کاذب کا اجالا دکھائی پڑتا ہے۔ اس لئے قصے کو سمیٹتا ہوں تاکہ کل کوئی نووارد آکریہ نہ پوچھے کہ فاختہ کی موت کا سبب کیا تھا۔‘‘
تو صاحبو! ان سبھوں نے مل کر اس صلیب کو تین کھونٹوں سے باندھ کر ایستادہ کیا اور اپنا سامان بٹور کر رخصت ہونے لگے تو انہیں دور سے دھاڑیں مار مار کر روتے ہوئے بوڑھے کی آواز سنائی دی۔ قریب پہنچ کر انہوں نے بوڑھے سے دریافت کیا۔
’’کیا تو اس مصلوب کے لئے روتا ہے کہ جس نے ہمارے مقدس پانسے کو چرانے کی کوشش کی تھی اور ناکام ہوا۔ یا ہماری سزا کی اذیت ناکی پر تیرا جگر پارہ پارہ ہے؟‘‘
بوڑھا اپنی ہچکیوں پر قابو پاتا ہوا بولا:
’’اس نوجوان کی موت کا مجھے اتنا رنج نہیں کہ جتنا ملال مجھے اس فاختہ کی موت کا ہے۔‘‘
یہ کہہ کر بوڑھے نے اپنی ہتھیلیوں میں پڑی فاختہ ان کے قدموں میں رکھ دی اور بولا:
’’مجھے فاختہ کی موت کا اس قدر ملال نہیں کہ جس قدر غم مجھے اپنے مقدس کلام کے کھو جانے کا ہے۔‘‘
یہ کہہ کر بوڑھے نے اپنے عبا کی جیب میں سے وہ کتاب نکالی کہ جس کے ہر صحفے پر حمد درج تھی— لیکن اب کتاب کا ہر صفحہ کورا تھا — بوڑھے نے وہ کتاب بھی ان کے قدموں میں رکھ دی اور بولا:
’’مجھے اس مقدس کلام کو کھونے کا اتنا غم نہیں کہ جتنا صدمہ مجھے اس گدھے کی بے حسی کا ہے۔‘‘
بوڑھے نے اس پیڑ کی طرف اشارہ کیا۔
وہ صندوق اب بھی گدھے کی پیٹھ پر لدا ہوا تھا اور وہ صندوق اب بھی مقف٘ل تھا اور وہ گدھا پیڑ کے ٹھنڈے سائے میں بیٹھا ہوا جگالی کر رہا تھا۔
(چوپال میں سنا ہوا قصہ از انور قمر ص 148)