چشم دل پر کیف ہے چھایا ہوا

چشم دل پر کیف ہے چھایا ہوا
ہے تصور میں کوئی آیا ہوا


دل میں ہے ہر وقت اک محفل جمی
کیا ہوا گر میں کبھی تنہا ہوا


تیرے قابل تو نہیں ہے یہ مگر
ایک دل لایا ہوں میں ٹوٹا ہوا


ذکر پھر بچھڑے چمن کا چھڑ گیا
مندمل تھا زخم دل تازہ ہوا


اے چمن سے آنے والو کچھ کہو
میرا بھی اک آشیاں تھا کیا ہوا


اب جوانی کا کریں کیا تذکرہ
ایک افسانہ سا ہے بھولا ہوا


کر رہا ہے دل کا ماتم کس لیے
دل اگر ٹوٹا ترا اچھا ہوا


عمر گزری اور ہم دیکھا کیے
زندگی کا کارواں لوٹا ہوا


ٹھوکریں کھا کھا کے دنیا میں حبیبؔ
یاد آیا ہر سبق بھولا ہوا