چمن چمن سے گلوں کا یہی پیام آیا

چمن چمن سے گلوں کا یہی پیام آیا
وہی حسیں ہے جو دنیا میں شاد کام آیا


مری طرف کو اٹھی یوں نگاہ ساقی کی
کہ جیسے دور میں لبریز مے کا جام آیا


خود ان کے رخ سے ہوا ان کے دل کا حال عیاں
جو بھولے بسرے کبھی لب پہ میرا نام آیا


بڑھا کے ہاتھ زمانے نے اس سے چھین لیا
جو ایک لہجہ بھی لب تک کسی کے جام آیا


صدائے پیر مغاں تھی یہ بزم رنداں میں
ہے اس کا میکدہ قبضے میں جس کے جام آیا


حریم ناز سے آ تو گیا ہوں میں لیکن
پکارتا ہوا کوئی ہر ایک گام آیا


میں گم ہی تھا ابھی تاریکیوں میں ماضی کی
کہ صبح نو کی کرن کا مجھے سلام آیا


خیال یار کی مد ہوشیاں معاذ اللہ
مری نظر نہ اٹھی جب وہ سوئے بام آیا


خرد کی ساری گئی پختہ کاریاں بے کار
بس ایک شوق کا سودائے خام کام آیا


حبیبؔ داد سخن مل گئی مجھے اس روز
پسند طبع جب ان کو مرا کلام آیا