چہار سمت سے کل تک جو گھر دمکتا تھا
چہار سمت سے کل تک جو گھر دمکتا تھا
ہم آج سیر کو نکلے تو بس خرابہ تھا
نہ جانے کس لئے آنکھیں دکھائیں سورج نے
ہماری آنکھوں نے بس خواب ہی تو مانگا تھا
درخت گہرے تنفس میں ہیں لرزتے ہیں
سوار ابر لیے بجلیوں کا کوڑا تھا
ہمارے ہاتھ میں ٹوٹا ہوا ہے آئینہ
سراپا تھا تو بھلا کیسا وہ سراپا تھا
اٹھائے پھرتے تھے شانوں پہ آپ اپنی لاش
وہ لوگ کون تھے کیا جرم ان کا ٹھہرا تھا