چار مسافر

نکلے سفر کو پیدل وہ چار ہم سفر تھے
سب اپنے راستے اور منزل سے باخبر تھے
اک فلسفی تھا ان میں دوسرا تھا نائی
پھر تیسرا سپاہی گنجا تھا جس کا بھائی
جنگل میں رات آئی لازم تھا ان کو سونا
لے کر چلے تھے اپنے وہ اوڑھنا بچھونا
سوئے کچھ اس طرح وہ اس میں ہوشیاری
ہر ایک کا تھا پہرا دو گھنٹے باری باری
پہلے سپاہی جاگا پھر آدھی رات آئی
وہ سو گیا تو پہرا دینے لگا تھا نائی
لمبے تھے اور گھنے تھے جو بال اس کے سر پر
نائی نے مونڈ ڈالے تیز استرا پھیر کر
بیدار فلسفی کو کر کے یہ بولا نائی
باری اب آپ کی ہے اٹھ جاؤ میرے بھائی
جب ہاتھ فلسفی نے چندیا پہ اپنی پھیرا
آپے سے ہو کے باہر نائی کو اس نے گھیرا
یہ کیا غضب کیا ہے ناحق اسے اٹھایا
باری تھی فلسفی کی گنجے کو کیوں جگایا