چاقو سے محبت کی رگیں کاٹ رہا ہے
چاقو سے محبت کی رگیں کاٹ رہا ہے
سنتے ہیں کہ وہ عشق میں ناکام ہوا ہے
پیچھے ترے اے شوخ نظر حسن کے پیکر
اک شخص نہیں سارا زمانہ ہی پڑا ہے
یاروں نے مرے آہ کہیں کا نہیں چھوڑا
ٹھوکر جو لگی مجھ کو تو اندازہ ہوا ہے
وہ حال جو انگریزوں نے بھارت کا کیا تھا
کچھ حال وہی عشق نے اب میرا کیا ہے
رستے کے ہر اک خطرے سے بچتے ہوئے اک دن
منزل پہ مرا قافلہ پہنچا تو لٹا ہے
وہ بانجھ زمیں جس کو کسی نے نہیں پوچھا
جالبؔ نے اسے سینچ کے شاداب کیا ہے